اتوار، 17 ستمبر، 2017

خوش قسمت زمانہ


ابھی کل کی بات ہے کہ لکھنے والے ادب میں دو وقت کی روٹی کی دعائیں کرتے ہیں ، نان شبینہ کے میسر ہونے پر شکر کرتے ہیں ۔
عام عوام میں جس کو دو وقت کی دو روٹیاں نصیب ہوتی تھیں وہ تونگر گنے جاتے تھے ،۔
پنجاب میں وڈانک گندم ہوتی تھے  قد آدم اس گندم سے جانوروں کے لئے توڑی زیادہ اور انسانوں کے لئے اناج کم نکلتا تھا ،۔
اگر برصغیر میں آلو ، ٹماٹر ، اور تمباکو کا تصور نہیں تھا تو باقی دنیا میں تو دالیں ، مسالے ،  گڑ اور کپاس کے لئے بھی ہند  پر نظریں ہوتی تھیں ،۔
انسانوں کی معلوم تاریخ میں  بھوک کا ادب بہت لکھا گیا ،۔
کسی خطے کا ادب دیکھ لیں ، لکھنے والے بھوک کا لکھتے رہے ہیں
کہ
انسان نے بہت بھوک دیکھی ہے ،۔
پیٹ کی بھوک ، اس بھوک کو مٹانے کے لئے انکھوں میں بھوک اتر آئی ، کبھی مذہب کے نام پر کبھی نسل کے نام پر کبھی کسی بہانے کبھی کسی بہانے دوسروں سے زمین ، گوشت اور اناج چھیننے کے لئے جنگیں لڑی گئیں ،۔
جنگیں تو اج بھی ہیں ، لوٹ مار اج بھی ہے ، انسانیت کے نام پر معدنیات کی لوٹ مار کی جنگیں ہیں ،۔
لیکن
پیٹ کی بھوک اب صرف کتابوں میں رہ گئی ہے یا پھر ناہموار معاشروں میں رزق کی غلط تقسیم میں ،۔
کہ
امریکہ کی دریافت کے بعد پرتگالیوں نے آلو ، ٹماٹر ، تمباکو کو دنیا میں متعارف کروایا ،۔
امریکہ کے قیام سے بنی نوع انسان نے تکنیک کی ترقی میں وہ کارہائے نمایاں انجام دئے ہیں کہ جن کی نظیر نہیں ملتی ،۔امریکہ میں کھاد کی دریافت نے  کھیتوں میں وہ انقلاب برپا کیا ہے کہ اج دنیا میں چاول ، اور گندم مکئی کی کوئی کمی نہیں ہے ،۔
اور  کھاد کی تکینک کی انتہا ہے کہ گوشت کو بھی کھاد لگا دی ہے ،۔
بھیڑ ہو کہ گائے ، مرغی ہو کہ مرغابی ان کو گوشت کی عمر تک پہنچے کے لئے ایک عرصہ درکار ہوتا ہے ،۔
ایک سور تھا جو کسی بھی دوسرے جانور سے زیادہ پیدا ہو کر جلدی گوشت تک پہنچ جاتا تھا ۔
لیکن
برائلر چکن کی دریافت کہ سور کے گوشت سے بھی جلدی تیار ہو جانے والے اس کوشت کو پیدا ہو کر دسترخوان تک پہنچے میں صرف دو ہفتے لگتے ہیں ،۔
اج انسان کے دسترخون پر ٹیبل پر خوراک کی بہتات ہے ،۔
جو کہ تاریخ میں کبھی بھی کسی بھی علاقے کے لوگوں کو مسیر نہ ہو سکی ،۔
اج کا انسان تاریخ کے خوش قسمت ترین دور میں رہ رہا ہے م،۔

بدھ، 6 ستمبر، 2017

میناماتا کی بیماری اور پاکستان

پارہ ، جس کو انگریزی میں مرکری کہتے ہیں ،۔
پاکستان جیسے پس ماندہ ممالک میں پارہ کے نقصانات کا عام عوام کو کوئی ادراک نہیں ہے اور ایسے ممالک میں لکھاری  لوگ بھی ایسی باتوں کا علم نہیں رکھتے ،۔
پاکستان میں اناج کو کیڑوں سے بچاؤ کے لئے بھی پارہ، ریت میں ملا کر اناج کے ڈھیروں یا کہ پڑولوں میں ڈال دیا جاتا ہے جس کی ریکوری کے لئے کچھ بھی انتظام نہیں ہے ،۔
 یہ پارہ زمین میں مل کر زیر زمین پانی کو بھی زہر الود کر دیتا ہے م،۔
تھرما میٹر  یا کہ بلڈ پریشر چیک کرنے والے میڈیکل آلات میں استعمال ہونے والا  پارہ اور  صنعتی استعمال میں ہونے والے پارے کی ایک  بڑی مقدار معاشرے میں گردش کر رہی ہے ،۔
مہذب دنیا کو پارے کے نقصانات کا احساس جاپان سے ظاہر ہونے والی ایک بیماری  میناماتا کی بیماری کی وجہ سے ہوا ،۔
مینماتا بیماری کیا ہے ؟
میناماتا بیماری ، جاپان کے کوماموتو پرفیکچر کے شہر میناماتا میں  ڈیسکور کی گئی تھی ،۔
اس بیماری میں  مریض نیروجیکل سینڈروم میں مبتلا ہو جاتا ہے ،۔
ہاتھ اور پاؤں  کو کپکپاہٹ شروع ہو جاتی ہے ،۔
نظر  کو پریفیرل وژن کی بیماری ، جس میں مریض کا ویو سکڑ کر رہ جاتا ہے ،۔
قوت سماعت ختم ہو جاتی ہے ، قوت گویائی بھی ختم ہو جاتی ہے م،۔
 اس مرض میں مبتلا مریض وقت گزرنے پر کومے میں چلا جاتا ہے اور موت واقع ہو جاتی ہے ،۔
جاپان میں کوماموتو پرفیکچر کے شہر میناماتا میں دوسری جنگ عظیم کے بعد اس بیماری کے بہت سے مریض پائے گئے ،۔
اس بیماری مینماتا کو 1956ء میں پہچانا گیا ،۔
اس کی وجہ میناماتا میں کیمیکل فیکٹری چیسو کارپوریشن  جو کہ پارہ استعال کرتی تھی  کو پایا گیا ،۔
سن  1932ء سے 1968ء تک کی اس کمپنی کا صنعتی فضلہ جو کہ  پانی میں بہہ کر دریا اور سمندر میں چلا جاتا تھااس کی وجہ سے  مچھلیوں میں پارہ کی مقدار زیادہ ہو گئی ، ان مچھلیوں کو غذا کے طور پر استعمال کرنے والےاور زمینی پانی پینے والوں کی ایک بڑی ابادی اس مرض میں مبتلا ہو گئی تھی ،۔
اس لئے اس  بیماری کو چیسو میناماتا بیماری بھی کہا جاتا ہے ،۔
جاپان میں اس بیماری کے مبتلا مریضوں کے چیسو کمپنی کے خلاف اجتجاج کی ایک تاریخ ہے ،۔
اس پر لکھنا اج کا موضوع نہیں ہے ،۔
مارچ 2001ء تک سرکاری طور پر  میناماتا بیماری کے مریضوں کی نفری 2265 تھی  جن میں سے 1784 افراد موت کا شکار ہو چکے تھے ،۔
اور 10000 سے زیادہ لوگ چیسو کمپنی سے ہرجانہ وصول کر چکے ہیں ،۔ سن 2004ء تک چیسو کمپنی  کوئی 86 کروڑ ڈالر ادا کر چکی ہے ،۔
جاپان میں میناماتا کی بیماری کی وجہ سے پارے کو استعمال کرنے ، پارے کو سنبھالنے پارے کو ری سائکل کرنے کی تعلیم شروع ہو ئی اور اس  کے لئے اصول وضع کئے گئے م،۔
اج جاپان اس پوزیشن میں ہے کہ جاپان کی وزارت ماحولیات نے ترقی پزیر ممالک میں پارے کو ری کور کرنے کے طریقہ کار کی تعلیم  دینے کے منصوبے پر کام شروع کیا ہے ،۔
پہلے پہلے ایشا میں جنوب مشرقی ایشائی ممالک میں اس کی تعلیم دی جائے گی ،۔
تھرما میٹر اور بلڈ پریشر کی مشین میں استعمال ہونے والے پارے کی مقدار جو کہ جاپان میں استعمال ہو رہی ہے اس کے متعلق انداز ہے کہ یہ کوئی  59 ٹن کے قریب ہے ،۔
جس میں 21 ٹن ہسپتالوں میں 7 ٹن سکولوں میں اور 18 سے 21 ٹن گھروں میں تھرما میٹروں اور بلڈپریشر ماپنے کی مشنیوں میں پڑا ہے م،۔
اسی نظرئے کے تحت جاپان کی وزارت ماحولیات کے ماہر  جنوب مشرقی ممالک میں ڈاکٹروں اور فارمسٹوں کو آگاہی دیں گے ،۔
مستقبل میں اس پروجیکٹ کو افریقہ کے ترقی پذیر ممالک تک وسیح کرنے کا پروگرام ہے م،۔
مندرجہ بالا تحریر سے اپ خود اندازہ کر لیں کہ پارے کے متعلق یا کہ اس سے پیدا ہونے والے ماحول دشمن  حالات سے نپٹنے کے لئے  پاکستان جیسے ملک میں کیا کام ہو رہا ہے یا کہ پاکستانی قوم کو اس معاملے کتنی آگاہی ہے ،۔
تحریر خاور کھوکھر

جمعہ، 1 ستمبر، 2017

اندر کے جانور

اج عید گاھ گیا ، عید کی نماز پڑھنے بہت سے ایسے چہرے بھی تھے جو کئی سال بعد نظر آتے ہیں اور ہر سال والے بھی ،۔
یہ میرا احساس تھا کہ غلط فہمی  مجھے ہر عمر ڈھلتے ساتھی کے چہرے پر اس کے اندر کے جانور کی شباہت نظر آ رہی تھی ،۔
بہت سے مرغی کی طرح لگتے تھے ، کہ کڑ کڑ کہیں اور انڈے کہیں ،۔
وہ جو مالکوں کے لئے انڈے دینے والے ،۔
ان کے ساتھ ساتھ ککڑ کی طرح نظر انے والے بھی تھے  بہت چوکنے ، ادھر ادھر ہر چیز پر نظر لیکن صرف ایفیشنسیاں ، پروگریس کوئی نئیں ،۔
یہاں طرح طرح کی بکریاں بھی تھیں ، جو کبھی کسی کے کام نہپیں  آتے اگر اتے بھی ہیں تو ؟ جب بھی دوددہ دیتی ہیں مینگنیاں  ڈال کر ہی دیتی ،۔
ان کے ساتھ ساتھ بکرے بھی تھے ، “ بو بکرے “  جو ہر وقت کسی بولی ہوئی بکری کی تلاش میں ہوتے ہیں کہ کس کو لگا دیں ،۔
یہاں طرح طرح کے کتے بھی تھے ، بل ڈاک ، ہاؤنڈز ، نسلی کتے بھی تھے  اور اوارہ کتے ،۔ ہر بندے کے چہرے پر اس کے اندر کے کتے کی شباہت نظر آ رہی تھی ،۔
یہاں وہ بھی تھے جو اپنا بخار تک کسی کو ادھار نہ دیں ،  جو پیسا کمانے اور سنبھالنے کے ماہر  گول گول چہرے ، گول گول پشت ، گول گول پیٹ  والے ، ان کے چہرے اور باتیں کرنے میں اس جانور کی شباہت نظر آ رہی تھی جس کا نام لینے میں زبان پلید ہو جاتئ ہے ،۔
ان کے ساتھ  گلہری کی طرح کے بھی تھے جن صرف کچھ گھٹلاں اکٹھی مل گئی ،ان کوسنبھال سنبھال کر رکھنے کو دولت مندی کے خمار میں مبتلا گلہریاں ،۔
یہاں وہ چاہا نما بھی تھے  جو تھوڑے سے مال پر پنساری بن  کر بیٹھے لگتے تھے ،۔
یہاں گائے بھی تھیں  جو کسی کے لئے کام کرتی سست سست دودہ دینے والی   اور ان کے ساتھ ساتھ بیل بھی نظر آ رہے تھے  ناراض ناراض سے طاقت کے نشے میں چور  لیکن چھری سے بے خبر ،۔

یہاں نئے نئے جوان وہ بھی نظر آ رہے تھے جن میں طاقتور گھوڑے کی شباہت تھی ، لمبی منزلوں کے لئے نکلے ہوئے ،۔
یہاں کچھ لومڑی  کی شباہت کے بھی تھے ،۔
اور بندر کی شباہت والے بھی ،۔
الو کی طرح دیدہ در بھی تھے تو کبوتر کی طرح کے بد اندیش بھی ،۔
یہ سب دیکھ کر میں باہر نکلا ، گاڑی سٹارٹ کی
اور بیک مرر میں دیکھ مجھے بہت شاک لگا
کہ
یہاں
مجھے ایک تھکا ہوا گھوڑا نظر آرہا تھا ،۔
تھکے ہوئے گھوڑے کا یہ چہرہ کسی اور کا نہیں خود میرا تھا ،۔
دوسروں کی سواری ، دوسروں کا دوست ، جس کی پیٹھ پر رکھی کاٹھی پر جس جس کا بھی داء لگا اس نے سواری کی ،۔

Popular Posts