منگل، 9 اگست، 2016

دو باتیں

پہلی بات
دادی سے سنی کہانیوں میں ایک بہت ہی سوہنی اور گوری شہزادی کے حسن کی تعریف کچھ اس طرح ہوتی تھی ،۔
کہ
اتنی سوہنی کہ اسے دیکھ کر راہیوں (مسافروں) کو راہ بھول جاتے تھے ،۔
سمجھ نہیں لگتی تھی کہ ایسے کیسے ہو سکتا ہے ۔
سوال کرنے پر دادی نے بتایا۔
پتر ہو جاندا اے ، اجہے تینوں سمجھ نئیں لگنی ۔
ایک عمر گزرنے پر سمجھ لگی
کہ
گھر سے کمائی کرنے نکلے تھے
کہ ایک دن وطن واپس جا کر زندگی گزاریں گے ،۔
لیکن
کسی کو پیرس میں کسی کو وینس میں ، کسی کو لندن میں تو کسی کو ٹوکیو میں !،۔
کہانی والی گوری ملی اور اس راہی کو اپنی رہیں اور منزل یاد ہی نہ رہی ،۔
کہیں کے کہیں نکل گئے ۔
کچھ ، ڈبے میں بند “ میت “ بن کے وطن لوٹے، کچھ کو یہ بھی نصیب نہ ہوا ،۔

دوسری بات
گاما پی ایچ ڈی!  بتا رہا تھا
کہ جس طرح پھول اپنی خوشبو سے ، درخت اپنے پتوں سے جانور اپنی نسلوں سے پہچانے جاتے ہیں ،۔
اسی طرح انسان اپنے اوصاف سےاور اپنی صحبت سے پہچانے جاتے ہیں ،۔
بھولا سنیارا پوچھتا ہے ، مثال دے کر بتائیں ، مہربانی ہو گی۔
دیکھو ! میرے ساتھ کاروبار کرنے والے ، تعلق رکھنے والے اور میرے دوست ان سب کی صفات دیکھ لو سب کے سب بڑے معتبر  زیرک اور سیانے لوگ ہیں ،۔
ان سب کی صحبت کرنے والے ، ہم بھی انہی کے ساتھ پہچانے جاتے ہیں ،۔
بھولا سنیار پریشان ہو کر سوال کرتا ہے
لیکن میں دیکھ رہا ہوں گاما صاحب
کہ یہاں بڑی بڑی داڑھیوں والے اور سفید پوش لوگ ، آپ کو کریزی اور کھسکا ہوا کہتے ہیں ،۔
گاما پی ایچ ڈی  مسکراتے ہوئے گویا ہوتے ہیں ،۔
بھولیا ! کیا تم نے کبھی کسی کوئے کو بلبل کی طرح پھولوں پر چہچہاتے ہوئے دیکھا ہے ،۔
کوا گندگی پر گرتا ہے ۔
مجھے کھسکا ہوا کہنے والے دوسری کیٹگری کے  لوگ ہیں ،۔
دوسری کیٹگری ! جو کہ میرے دوستوں کے اوصاف سے متضاد کوالٹی والے ہیں ،۔
بھولا منمناتا ہے
یعنی کہ
سفید پوش  لیکن سیاھ کار لوگ !!۔
نوٹ : یہ تحریر  فیس بک پر میری وال پر شایع ہو چکی ہیں ،۔
 

کوئی تبصرے نہیں:

Popular Posts