منگل، 16 اگست، 2016

علم عقل کی باتیں


محاورے کی کہانی!،۔
ٹرک دی بتی پچھے!!،۔
ساٹھ کی دہائی میں ، ملک تو ترقی کر رہا تھا لیکن لوگ ملک سے بھاگنے شروع ہو چکے تھے ،۔
جرمنی میں کہیں کسی لوگر ہاؤس میں  پاکستانی اور کچھ سکھ بھی  جرمن حکومت نے رکھے ہوئے تھے ،۔
ان میں سے سکھ اور مسلمان لڑکوں کی ہر روز کسی نہ کسی بات میں  مقابلہ بازی ہوتی ہی رہتی تھی ۔
کبھی گٹ پکڑنا ، کبھی پنجہ لڑانا ۔
جوان لڑکے مقابلے بازی میں اپنے اپنے ملک اور دھرم کو بہتر بنا کر پیش کرتے تھے تو بزرگ لوگ ریفری ہوتے تھے ،۔
اقبال سنگھ اور محمد اقبال کی چڑ چڑ سے تنگ ایک دن  ایک بزرگ لوگوں نے ان کو دوڑ کر اپنی صلاحیت دیکھناے کا راستہ دیکھایا ،۔
سارے لوگر ہاؤس کے لوگ ہلا شیری دینے لگے ،۔
رات کا وقت تھا ،۔
دور کہیں کسی گھر کی بتی جل رہی تھی ، پہلے محمد اقبال کو کہا گیا کہ تم اس بتی کو چھو کر واپس آؤ گے ،۔
ایک گھڑی درمیان میں رکھ کر محمد اقبال کو ون ٹو تھری کر دیا گیا ،۔
فاصلہ خاصا زیادہ تھا ، محمد اقبال کوئی ایک گھنٹے بعد واپس آیا ۔
اب باری تھی  اقبال سنگھ کی ، پہلے ہی کی طرح اس کو بھی ون ٹو تھری کروا  دیا گیا ۔
سب لوگ گھڑی دیکھ کر انتظار کرنے لگے ، اقبال سنگھ واپس نہیں پلٹا ، ایک گھنٹا ، دو گھنٹے ، تین گھنٹے ، رات بھیگنے لگی ، سب لوگ مایوس ہو کر سو گئے ، اگلے دن بھی اقبال سنگھ واپس نہیں آیا ،۔
بڑی چرچا ہوئی سب لوگ اقبال سنگھ کے لئے پریشان تھے کہ اس کو کیا ہو گیا ۔
تیسرے دن  اقبال سنگھ واپس پلٹا ، چہرئے پر ہوائیاں ، اڑ رہی تھیں ۔ سانس پھولی ہوئی تھی ، چہرہ پچک کر چوسے ہوئے آم کی طرح ہوا تھا ،۔
سب لوگ اس کے گرد اکھٹے ہوگئے ، ہر کسی کی زبان پر ایک ہی سوال تھا
کہ اقبال سنگھا ہوا کیا تھا ؟
اقبال سنگھ نے ہانپتے ہوئے بتایا
یارو، تم لوگوں نے جو بتی مجھے دیکھائی تھی وہ ٹرک کی بتی تھی ۔
اور وہ ٹرک فرینکفرٹ جا کر رکا تھا ،۔
میں اس ٹرک کی بتی کو فرینکفرٹ میں ہاتھ لگا کر واپس آ رہا ہوں ۔
حاصل مطالعہ
اس دن سے ٹرک کی بتی کے پیچھے بھاگتے ہوئے اقبال سنگھ کی فیلنگ کو  محسوس کرنے والا بندہ خود کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا ہوا محسوس کرتا ہے ،۔


اچھو : یار گامیا؟ یہ سارے مذہبی سکالر ، دانشور ، اور  مولوی شولوی  چودہ سو سال سے بحثیں اور لڑائیاں کیے جا رہے ہیں ۔
اخر ان کا مقصد کیا ہے ؟ یہ چاہتے کیا ہیں ؟؟
اے سارے سیانے اللہ دے حکم  “ واعتصموا بحبل الله جميعا ولا تفرقوا” تے عمل کیوں نہیں کرتے ؟
شیدا سیانا : گامیا کھول دے سیکرٹ ، اور بتا دے  حقیقت !۔
گاما : ویکھ اچھو ! یہ بات بڑی سیکرٹ ہے اپنے تک رکھنا ورنہ  ، یہ سارےے تمہیں قتل کرنے کی بات میں سارے تفرقے کو ایک طرف رکھ دیں گے۔
وہ سیکرٹ یہ ہے
کہ
اگر ان سب لوگوں نے اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لیا تو ؟
شیطان بے چارے کا کیا بنے گا ؟؟
گل سمجھ لگ گئی اے ناں ، اے سارے اللہ دے نام تے شیطان دے بندے نے !!۔


ایک کان صاحب، بادام بیچ رہا تھا ۔
گامے کو کہتا ہے بادم لے لو سیٹھ ! اس کے کھانے سے دماغ تیز ہوتا ہے ۔
گاما: اچھا وہ کیسے ؟
کان صاحب : میں ایک سوال پوچھتا ہوں اس کا جواب دو ۔
گاما : ہاں پوچھو !۔
کان صاحب : ایک سیر وزن میں چاول کے کتنے دانے ہوتے ہیں ؟
گاما : 38400 اٹھتیس ہزار چار سو دانے ۔
کان ساحب : بکواس کرتا ہے اے دال خور ، تم  نے چاول کا دانہ گنا ہوا اے ؟ گپ باز کمہارو!۔
گاما: کان صاحب وزن کا فارمولہ ہے
کہ 5 دانے چاول برابر ہے ایک رتی ،۔
آٹھ رتی کا ایک  ماشہ ، بارہ ماشے کا ایک تولہ  ، اسی تولے کا ایک سیر ،
یہ بنتے ہیں ، 5* 8=40 یعنی  ایک ماشہ ، 40*12= 480 ایک تولہ ، 480*80=38400 دانے چاول یعنی کہ ایک سیر ۔

اوئے کان صاحب ، عقل بادام کھانے سے نہیں آتی ،عقل تعلیم حاصل کرنے سے آتی ہے ۔

==================
جس کے پاس جا کر ہر مرد سر جھکا کر بیٹھ جاتا ہے ۔
اس کو کیا کہتے ہیں ؟،۔
اس کو راجہ (نائی) کہتے ہیں !!۔
اور  اس مرد مہربان کو کیا کہیں گے ، جو راجہ کے سامنے بھی سر نہیں جھکاتا ؟؟َ
اس مرد مہربان کو کہیں گے !
گنجا !!،۔؎


شرک اور عقیدت پر بات چل رہی  تھی۔
شیدا سیانا ، بڑا سنسنی خیز لہجے میں جیسے کہ سب کو اطلاع دے رہا ہو !۔
بتاتا ہے ۔
ویکھو جی ؛ دنیا بھر میں کوئی بھی دھرم  ایسے ہی کوئی پتھر اٹھا کر اس کی پوجا شروع نہیں کر دیتا ۔
پتھر کے ہر بت یا قبر کے تعویذ کے پیچھے ایک شخیصت  ہوتی ہے ، جس کی پرستش یا عقیدت کرتے ہیں ۔
خاص گامے کی طرف منہ کر کے کہتا ہے ۔
کیوں جی بھائی گامیا؟ کیا ایسا کوئی احمق ہو گا جو ایسے ہی ، کسی پتھر سے امیدیں لگائے بیٹھا ہو ؟؟
گاما ہلکا سا  “ آہو “ کہہ کر خاموش ہو جاتا ہے ۔
شیدا سیانا تپ کر کہتا ہے ، بھائی گامیا ، کوئی گل کر کرن والی ، ایسا کوئی احمق ہو ہی نہیں سکتا جو صرف ایک پتھر سے عقیدت یا  امید رکھتا ہو ۔
گاما: یار شیدیا ! تم نے بھی تو وہ کتاب پڑہی ہے ناں ؟ “ پتھروں کے خواص”؟ اور تم نے بھی تو فیروزہ انگوٹھی میں منڈھ رکھا ہے ناں ؟
کہ اگر فیروزہ مافک آ گیا تو وارے نیارے ہو جائیں گے ۔
اسی طرح نیلم ، تامڑہ ، زمرد اور پکھراج پہننے والوں کی امیدوں سے کیا تم واقف نہیں ہو ؟
شیدا سیانا لاجواب ہو کر کھسیانی سی ہنسی  ہونٹوں پر سجا کر سب کی طرف دیکھتا ہے
او جی اے گاما ہے ہی کھسکیا ہوا ، جب بھی بولتا ہے  وکھی سے ہی بولتا ہے  ۔
ہی ہی ہی ہی !!!۔


سوال تھا کہ
اصحاب اعراف کیا ہیں ،۔
جواب : وہ لوگ جو جہنم اور جنت کے درمیان لٹکے ہوئے ہیں کہ
اس کے تیار کردہ کاغذات (نامہ اعمال) کے حساب سے ان کو جنت نصیب ہو گی کہ جہنم ۔
فی زمانہ
اپ ایسے لوگوں کی کیفیت کا اندازہ کرنا چاہتے ہیں تو؟
ایسے لوگ دیکھ لیں جو ، امریکہ یورپ یا جاپان پہنچ چکے ہیں ،
اور اس بات کا انتظار کر رہے ہیں کہ
امیگریشن والے ان کو جنت میں داخل کرتے ہیں یا کہ  ؟ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟

سوال تھا کہ
ذندیق کیا ہیں ؟؟
جواب : وہ لوگ جو فواید حاصل کرنے کے لئے  مسلمانون کے ساتھی ہوں لیکن دل سے اس نظام کی تباہی چاہتے ہوں ۔ بجائے تشکر کے کیڑے نکلاتے ہوں ۔
فی زمانہ
 امریکہ ،یورپ یا جاپان کی ایمگریشن ، نیشنیلٹی کے لئے ہلکان ، لیکن انہی ممالک کو درالاکفر ، کہتے ہوئے ان کی تباہی کی دعائیں کرتے ہیں ، ان کی مثال دیکھ سکتے ہیں ،۔

کوئی تبصرے نہیں:

Popular Posts