اتوار، 25 دسمبر، 2005

كمى كمين

كمى كمين مجموعه ەے دو الفاظ كمى اور كمينه كا ـ
كمى يعنى كام كرنے والا ەنر مند ـ
كمينه يعنى اخلاقى طور پر ديواليه .يا بد تەذيب ـ
اس طرح اس لفظ كے معنى ەوئے ەنر مند ڈيفينيٹلى بد اخلاق اور اور بد تٍهذيب هوتا ەےـ
ەنر مند(لوەے كى چيزيں بنانے والے برتن بنانے والے لكڑي كو اشكال دينے والے) كى يه ڈيفينيشن ەيں پاكستان ميں ـ
اور كچهـ معاشروں ميں ەنر بذات خود تەذيب كى علامت ـ
ەنر مند كو كمينه كەنے والے پاكـ معاشرے ميں ەنر كو تەذيب سمجنے والوں(يورپين وغيره) كو كافراور پليد كەا جاتا ەےـ
پاكستان ميں ميں نے ديكها ەے كه عام طور پر كمى لوگ ايكـ دوسرے كو چاچا جى بابا جى اور چاچى ماسى كەـ كر پكارنے ايكـ دوسے كو پيسے ادهار دے دينے اور ادهار لئے پيسے واپس كرنے لڑائى جگهڑے سے پرەيز،تهانے كچەرىسےپناه مانگتے اور بيمار كى تماردارى جيسى كمينگيوں مبتلا ەيں ـ

ہفتہ، 17 دسمبر، 2005

ايكـ اور سوله دسمبر

سوله دسمبر
ـكيا آپ كو معلوم ەے كه اس دن انيس سو اكەتر ميں كيا ەوا تها
يا كيا آپ كو معلوم ەے كه بەارى كيمپوں ميں پهنسے ەوئے پاكستانيوں پر كيا بيت رەى ەے ـ
پاكـ فوج كے بوئے ەوئے كانٹے يوں تو سب پاكستانيوں كو چبتے ەوں گے مگر بەارى بهائيوں كے دكهـ كا كتنے لوكوں كو احساس ەے ؟؟
سوله دسمبر اكەتر سے پەلے بنگله ديش والے بهى پاكستانى تهے ـاور اس بات پر فخر كيا كرتے تهے ـ
سياسى طور پر انتەائى باشعور بنگالىكو پەلے انگريز نے اور پهر پاكـ فوج نے غدار كەا ـ
بنگالى اس لئيے غدّار كەلوايا كه جبر كے خلاف سياسى جدوجەد كئيے ەى جاتا هے ـ
بنگالى كے سياسى شعور كا اندازه اس بات سے لگا ليں كه انەوں نے پينتيس سال پەلے فوجى امروں سے جان چهوڑا لى تهىـ
پاكـ آمر
پليد سياسدان
پاكـ فوج
پليد عوام
پاكـ روپے
پليد ڈالر
پچهلے سال سوله دسمبر كوجوپوسٹ ميں نے لكهى تهىوه پڑەنے كے لئيے
يەاں كلكـ كريں

اتوار، 13 نومبر، 2005

گر دى گل

ماں دهى نوں ٹردياں مت ديندى
ميرى گل دا ذرا خيال ركهيں
وهڑا سوهرياں دا تلكن بازياں نى
توں قدم سنبهال سنبهال ركهيں
سارے جگ نال ناں بهاويں بنے تيرى
پر توں صلح خصم دے نال ركهيں

پیر، 7 نومبر، 2005

فرانس كے هنگامے

علاقه هى بدنام تها ـ كليشىسوبه چٹے دن ادمى كو لوٹ ليا جاتاتها ـ پوليس كى گاڑيوں پر پتهراؤ عام سى بات تهى ـ پاكستانى لوگ ايكـ دوسرے كو مشوره ديا كرتے تهے كه كليشىسوبه كے علاقه ميں جانے سے اجتناب كروـ
فرانس كے اس علاقے ميں پچهلے دنوں پوليس سے فرار كى كوشش ميں اس علاقے كے دو لڑكے بجلى لگنے سے فوت هو گئے ـ
يه بات هنگاموں كا بهانه بن گئى ـ

ہفتہ، 5 نومبر، 2005

عيد كا چاند

عيد كا چاند
اج ميں نے عيد كا چاند ديكها ـ
اج چار نومبر دوهزار پانچ عيسوى ـ (٤ ـ ١١ ـ ٢٠٠٥) ـ
كے شام پانچ بج كر پچاس منٹ پر ميں فرانس كے شهر شارتر سے گاڑى پر نكل رها تها ـ شارتر كے بڑے چرچ كے ميناركے اوپر پەلے دن كا ەلال نظر آ رها تها ـ اور واضع طور پر يه پەلے دن كا چاند تها ـ
يعنى كه عيد الفطر اج پانچ نومبر كو هے ـ اور هم لوگ دو دن پهلے منا چكے هيں ـ
اس دفعه پچهلے مەينے كا اخرى دنوں كا چاند بهى هر روز نظر اتا رها هے ـ اور اماوس كى ٹهيكـ تين راتوں كے بعد چار نومبر كو چاند نظر آيا هے ـ مگر هم نے اماوس كى ايكـ رات كے بعد عيد منا لى ـ
ميرے ساتهـ وركـ نام كا ايكـ سكهـ كام كرتا هے ـجب ميں نے اسے بتايا كه كل عيد هے اس نے بهى كەا كه اج اماوس كى پەلى رات هے كل تو عيد هو ەى نهيں سكتى ـ
رات جب هم نے چاند ديكها اس وقت بهى وركـ ساتهـ تها ـ وركـ نے تكرار كے ساتهـ كەا كهـ
پاء جى خاور ميں نهيں كيندا سى كه ماس دى تناں راتاں توں پهلاں چن نكل اى نهيں سكدا ـ
ديكهـ ليں ايكـ سكهـ كو چاند كے نكلنے كا پته ەے اور مسلمانوں كے احباب اختيار كو پته نهيں هے ـ
بحر حال دوسروں كا تو پته نهيں ميں تو اج اكيلا هى دو ركعت نماز پڑهوں گا اور رمضان كے دو روزوں كا كفاره بهى ادا كروں گا ـ
ميں نے يه سب لكهـ ديا هے كه سند هے ـ
اللّه جى هم سب كو معاف فرمائيں ـ آمين!ـ

جمعرات، 3 نومبر، 2005

اكيلے كى عيد

عيد مباركـ
اج همارى عيد تهى يهاں فرانس ميں ـ اكتوبر كى چار كو همارا پەلا روزه تها ـ
سب مسلمانوں كو عيد مباركـ ـ
ميرے خيال ميں تو چاند نظر نهيں ايا هو گا مگر كيونكه هم نے تيس روزے پورے كر لئيے هيں اس لئيے اج عيد كى نماز پڑه لى گئى ـ
باقى ميرى عيد تو كئى سالوں سے اداس سى گذرتى هے اج بهي گهر كے پاس والى افريقى لوگوں كى مسجد ميں نماز پڑهى ـ
عيد ملنے والا ايكـ بهى پاكستانى نهيں تها ـ
بحر حال اب گاڑى لے كر نكلتا هوں پەلے تو گاڑى كو دهونا هے ـ
ٹائروں كى هوا وغيره پورى كرنى هے ـ
اس كے بعد پيرس سنٹر(شانزے ليزے يا اوپرا كے پاس) ميں گهومنے نكلوں گا شائد كوئى دلچسپ شخصيت مل جائے ـ
اللّه اپ سب لوگوں كو خوشياں ديكهاے

بدھ، 2 نومبر، 2005

دفاعى بجٹ يا جرنيلوں كى ليگزرى

بى بى سى كے مطابق
جنرل پرویز مشرف نے کہا ہے کہ وہ زلزلے سے متاثرہ علاقوں میں تعمیر نو کے لیے دفاعی بجٹ میں کمی نہیں کر سکتے۔ راولپنڈی میں ایک پریس کانفرنس میں صحافیوں کے سوالات کے جواب میں جنرل نے کہا کہ دفاعی بجٹ اور زلزلے سے متاثرہ علاقوں کی تعمیر نو دو الگ الگ چیزیں ہیں اور ان کو ایک ہی تناظر میں دیکھنا ٹھیک نہیں ہے۔انہوں نے کہا کہ دفاعی بجٹ میں کمی کے بارے میں انہوں نے کچھ نہیں سوچا ہے کیونکہ ان کے خیال میں ایسا کرنا ملک کی سلامتی کی صورتحال کے لیے مناسب نہیں ہو گا۔

ـ
جەاں تكـ ميں نے ان صاحب كو سنا اور پڑها ەے ـ جب يه صاحب كەتے هيں دفاع تو اس كے معنى هوتے هيں فوجى جرنيل اور ان كى عياشى(ليگزرى)ـ
اج كے بعد اگر اپ جنرلصاحب كے لفظ دفاع كو جرنيل عياشى كر كے پڑهيں تو آپ كو بەت سے حقائق كا ادراكـ حاصل هو گا ـ
هم جنرل صاحب سے صرف يه درخواست هى كر سكتے هيں ـ
جنرل صاحب کو جرنيل عياشى بجٹ میں فوری طور پر کمی کرنی چاہئے کیوں کہ ابھی ملک کو کسی جارحیت کا کوئی خطرہ نہیں ہے۔ اگر خطرہ ہے تو وہ صرف ان لوگوں کی زندگی کو ہے جو زلزلے سے متاثر ہوئے ہیں، جن کی زندگی کو شدید خطرہ لاحق ہے۔ جنرل صاحب کو چاہئے کہ وہ جرنيل عياشى بجٹ کم سےکم یا ختم کرکے زلزلہ متاثرین کے لئے خیمہ بستیاں قائم کرنے کے بجائے ان کے لئے نئے شہر بسائے تاکہ لوگ مستقل طور پر محفوظ ہوجائیں۔جب ہر عام پاكستانى زلزلہ زدگان کے لئے مالی امداد کرسکتا ہے تو فوج اپنے بجٹ میں کیوں کمی نہیں کرسکتی؟
دفاعی بجٹ کا کیا قبرستانوں کا دفاع کرنے کو مسٹر مشرف کو؟

مختاراں مائى

بى بى سى كے مطابق امريكه ميں مختاراں مائى كا بيان
میں خواتین پر جبر اور انہیں زو آوری سے تابع رکھنے کے خلاف جنگ لڑ رہی ہوں ـ

جس عورت كے ساتهـ مختاراں مائى كے بهائى نے سيكس كيا تها اور جس كى سزا كے طور پر پنچائيت نے مختاراں مائي كے خلاف فيصله ديا تها كيا وه عورت ايكـ عورت نهيں هے ـ
كيا وه كسى كى بهن يا بيٹى نهيں هے ؟؟؟؟ـ



امریکی دورے کے دوران انہیں سابق امریکی صدر بل کلنٹن’وومن آف دی ائیر‘ کا ایوارڈ دیں گے

يار كلنٹن صاحب بهى كيا مرد هے؟ كلنٹن صاحب كى اس سال كى عورت !!يه صاحب سالانه كتنى عورتيں چيكـ كرتے هيں ـ

منگل، 1 نومبر، 2005

لندن

انگريزوں كا دعوي هے كه قديم رومى دور ميں بهى لندن ايكـ سر گرم مركز تها ـ يه چهوٹا سا گاؤں دريائے تهيمز كے كنارے اس طرح اباد كيا گيا كه ايكـ طرف سے دريا اس كى حفاظت كرتا تها ـ
تاريخ بتاتى هے كه جن دنوں عرب مسلمانوں كى تهذيب هسپانيه يعنى اسپين ميں عظمت كى بلنديوں كو چهو رهى تهى ـ ان دنوں لندن ايكـ چهوٹے سے گاؤں كى حثيت ركهتا تها ـ جهاں كى دلدلى اور بنجر زمين پر چند جهونپڑى نما مكانات اور كچى سڑكيں تهيں اور لوگ بهى ذياده تر وحشى اور غاروں كے باسى تهے ـ
چناچه جب انگريزوں كى فوج رچرڈ شير دل كى قيادت ميں صلاح الدين ايوبى سے صليبى جنگوں ميں مقابله كرنے گئى تو اس كىاكثريت كهالوں ميں ملبوس تهى اور مسلمان فوج كے لباس اور هتهيار ديكهـ كررچرڈ كے فوجى دنگ ره گئے ـ
١٢٥٨ء كے سقوط بغدادكے عظيم الميے كے بعد جب تەذيب كا سورج مغررب ميں طلوع هوا تو يورپى اقوام نے اپنے شهر منظم كرنے شروع كئيے ـ يورپ ميں شهر بسانے كے لئيے پهلے كوئى يادگارمثلا فوارا يا گهنٹا گهر قسم كى چيز تعمير كر كے اس كے گرد ايكـ بهت بڑا گول چوراها بنايا جاتا تهاجس سے كچهـ فاصلے پر اردگرد گولائى ميں مكانات بننے شروع هو جاتے تهے اور يوں شەر وجود ميں آجاتا تها ـاس كے برعكس مشرق ميں پەلے ايكـ سيدها طويل بلكه مستطيل بازار تعمير كيا جاتا هے جس كے اردگرد مكانات تعمير كئے جاتے هيں ـ
انگريزوں نے برصغير ميں جو شەر اباد كئےان ميں اپنا انداز اپنايا چناچه لائل پور موجوده فيصل اباداور گوجرانواله ميں يەى اصول برتا گياـ
اصل لندن بهى ايكـ فوارے كے گرد آباد هے جس كا نام پكڈلى سركس هےـ
اس فوارے پكڈلى سركس كے چاروں طرف چهـ بازار نكلتے هيں جو اده اده ميل لمبے هيں اصل شەر لندن كى بس يهى حدود هيں يعنى ايكـ ميل لمبا اور ايكـ ميل چوڑا ـ
انگريزوں كى كالونياں هونے كى وجه سے جب دور دور كى دولت سمٹ كر لندن پەنچى تو چند ەزار كى آبادى سے يه شەر لاكهوں كا شەر بن گيا اور لندن كے گرد مضافاتى بستياں بنائى گئيں اور انهيں مكمل شەروں كے اختيارات دئيے گئے چناچه لندن شەر سے كەيں بڑےباره شەر لندن ك گرد ١٩٤٥ ميں آباد كئيے گئے ـ
ان شەروں كو ەوم كاؤنٹى كا نام ديا گيا ـ برطانيه بهر ميں ايسى كاؤنٹيوں كى تعداد ٣٢ هے جنميں سے باره لندن ميں ەيں ـ
لندن شهر اور اس كى كاونٹيوں كا موجوده كل رقبعه ٦١٠ مربع ميل هے جسے عظيم تر لندن كەا جاتا ەے ـ
ايكـ محتاط اندازے كے مطابق روزانه گياره باره لاكهـ افراد لندن ميں داخل هوتے گهومتے پهرتے اور شام كے واپس جاتے هيں اور ٹرانسپورٹ كے بەترين نظام سے فائده اٹهاتے هيں جو ەائى ويز سے لے كر ريل كے جديد نظام تكـ پهيلا هوا هے ـ
لندن كےهيتهرو هوائى اڈے پرقريبا ساڑے چار كروڑمسافر سالانه سفر كررتے هيں دنيا كى سب سے پەلى زير زمين ريل گاڑى١٨٦٣ء ميں لندن ميں چلائى گئى ـ دوسرى جنگ عظيم ميں زير زمين ريل گاڑى كے نظام كو كافى نقصان پەنچا ـ
اب اس كى پٹريوں كى كل لمبائى٢٥٤ميل هے ـلندن كا كوئى مقام ايسا نەيں جو اس كى دسترس سے باەر هو ـ

.(محمد يونس بلوچ جرمنى )

پیر، 31 اکتوبر، 2005

مينار كى بات

اس برصغير ميں عالمگيرى مسجد كے ميناروں كے بعدجو پهلا اهم مينار مكمل هوا هے وه مينار قرارداد پاكستان هے ـ
يوں تو مسجد اور مينار امنے سامنے هيں مگر ان كے دميان يه ذره سى مسافت جس ميں سكهوں كا گرودواره اور فرنگيوں كا پڑاؤ شامل هيں ـ تين صديوں پر محيط هيں ـ
ميں مسجد كى سيڑهيوں پر بيٹها ان تين گمشده صديوں كا ماتم كر رها تها كه مسجد كے مينار نے جهكـ كر ميرے كان ميں راز كى بات كەـ دى ـ
جب مسجديں بے رونق اور مدررسے بے چراغ هوجايں ـ جهاد كى جگه جمود اور حق كى چكه حكايت كو مل جائے ملكـ كى بجائے مفاد اورملت كى بجائے مصلحت عزيز هواور جب مسلمانوں كو موت سے خوف ائے اور ذندگ سے محبت هو جائے تو صدياں يوں هى گم هو جاتى هيں


مختار مسعود كى كتاب آواز دوست سے

جمعہ، 28 اکتوبر، 2005

ايكـ پرانى پوسٹ ـ

ظالم ماپے(والدين)ـ


كتنے ظالم ەيں پاكستانى والدين جو بچوں كو پرديس بهيج كر ان كى كمائى پر گلچهڑے اڑاتے ەيں!!كتنے بے حس هيں كه كمائى بهيجنے والوں كے مستقبل كا احساس ەى نەيں!يا پهر اتنے چالاك ەيں كه ان كو پاكستان انے دينا ەى نهيں چاەتے !كه كەيں رقم كى ترسيل بند نه ەو جائے دنيا كے سارے ەى قابل ذكر ملكوں ميرا جانا ەوا ەےاور ەزاروں ەى پاكستانيوں سے دكهـ سكهـ كەے سنے ەيں پەلے پەل سارے ەى والدين سے فرمانبردارى اور آپنے گهر سے وفادارى كى باتيں كرتے ەيں مگر جب دوسرے جلا وطن لوگوں كى باتيں سنتے ەيں كه سالەاسال كى كمائىاور گهر كو رقم كى ترسيل كے باوجود نتيجه صفر !تو پهر95% جوان اپنى رقم كے ضيائع اور اپنے گهر والوں كى خواەشات كے بڑهنے كا بتاتے ەيں! باەر رهنے والے كيسى ذندگى گزاررەے ەيں آپنے گهر كى حالت بەتر بنانے كے ليے آپنى حالت كتنى خراب كر لى ەے اس پر كبهى كسى نے نەيں لكها!ايك ايك كمرے ميں سات سات ادمى اور لاكهوں كاكروچ عام بات ەے كپڑے خريدنے جايئں كے سب سستے والے خريديں گے كه گهر پيسے بهيجنے ەيں كهانے والى چيزيں خريدنے جائيں گے سب سے سستى والى كه گهر پيسے بهيجنے هيں تازه سبزى صرف آلو كهاتے ەيں باقى ەر چيزجمّى ەوى يا پهر ٹين كے ڈبوں والىكيونكه گهر پيسے بهيجنے ەيں جب بهى كوئى قيمتى چيز خريديں گے وه پاكستان بهائى يا ابا جي كو بهيجنے كے لئے ەو گى! يه پاكستان والے باەر والوں كے لئے كيا كر رەے ەيں حقيقت ميں كچهـ بهى نەيں مگر كچهـ كرنے كى كوشش كا ڈرامه!اپنى كفائيت شعارى كا ڈرامه اتنا كه جب بهى فون كريں گے صرف اتنا كەنے كے لئے كه تم پاكستان فون كرو ! اب كوئى پوچهے كه فون آپ كريں يا جلا وطن پيسے تو جلا وطن كے ەى خرچ ەوں گے ناں؟؟مگر چالاكى ديكهيں كه اپنى كفائيت شعارى كا ڈرامه كيا جارەا ەےمگر پرديسى ەيں كه ان كي انكهوں پر والدين كى فرمانبردارى كى پٹى بندهى ەے
پاكستانيوں كى پچهلى ايك نسل ايسى ەوى ەے جن كى پەلى عمر آپنے والدين كے سەارے اور جب يه والدين بنے آپنى اولاد كے سەارےذنذگى گزار رەے ەيں اس نسل نے صرف ايك ەى كام كيا ەے پاخانه كرنا باپ كى كمائى بهى كها كر پاخانه اور جلا وطن اولاد كى كمائى كها كر پاخانه! اگر جلاوطن بيٹا فون پر كەے كه اباجى دوكان كر ليں تو كهيں گے كه دوكان كا كوئى فائده نەيں ادهار بەت ەو جاتا ەے اگر زمين دارى كا كهيں تو جواب ملتا ەے كه زمين دارى ميں اب رها ەى كچه نەيں! آگر كوئى فيكٹرىلگانے كا كهيں تو جواب ملے گا مجه سے تو يه كام ەوتا نەيں تم خود ەى آ كر كچهـ كر لو الله كى شان !20سال جلاوطن ره كر باپ كى بيٹيوں كى شادياں كر دى اب جب اپنى بيٹياں جوان ەيں ان كى شادياں كون كرے گا؟؟سيدها سا فلسفه ەے ەمارے والدين والى نسل كے پاكستانيوں كا كه ەم تين نسلوں كى پرورش كريں !آپنے والدين كى آپنى اور آپنى اولاد كى؛اگر پوچهيں كه اباجى آپ نے سارى ذندگى كيا كيا ەے ؟ تو جواب ملتا ەے كه تمەيں پيداكيا ەے يه كيا كم ەے!الله رحم كرے ابا جي جلاوطن بيٹوں پر رحم كريں پرديسيوں كو گهر واپس آنے ديں اولاد كے ليے كوئى كاروبار كريں پاكستان ميں كوئى كمائى كا ذريعه بنائيں كه پرديسيوں كو واپس اتے ەوے خوف نه آئےخدا كا واسطه ەے پرديسيوں پر ترس كهائيں اگر باەر والے اپ كى پريشانى كا خيال كرتے ەوے اپنى اصلى حالت نەيں بتاتے آپ ەى عقل سے كام ليں آگرالله نے اپ كو عقل نەيں دى تو اس سے موت ەى مانگ ليں كه اولاد كو ايك قسم كے عذاب سے نجات مل جائے

بدھ، 5 اکتوبر، 2005

رمضان شريف

جى هاں يهاں فرانس ميں اج پهلا روزه تها ـ
ميرے لئيے ايكـ فرض كى ادائگى كا مهينه ەے ـ
يه احساس رهتا هے كه رمضان كے فرض روزے اگر اس رمضان ميں نه ركهے تو
شائد يه فرض ادا كرنے كا موقع نه ملے ـ
بهت سال پهلے ميں كچهـ روزے نهيں ركها سكا تها ـ وه سارا سال اتنا پچهتاوا هوا كه شائد ميں كبهى نه بهول سكوں ـ
اللّه مجهے فرائض كى ادائگى كى توفيق دے ـ

سب مسلمان بهائيوں كو رمضان مباركـ


سب مسلمان بهائيوں كو رمضان مباركـ
اپنى دعاؤں ميں مجهـ نمانے كو بهى ياد ركهيں ـ
كه مجهے دعاؤں كى بهت ضرورت ەے ـ

اتوار، 2 اکتوبر، 2005

بموں كى ماں

جناب بش صاحب كو صدر بننے سے پەلے يه بهى پته نەيں تها كه پاكستان كا حكمران كون ەے ـ خاندانى دولت ادمى كو كهان سے كهاں پهنچاديتى هے ـ جارج بش جنهيں تاريخ كا سرسرىسا بهى علم نهيں اج امريكه كے صدر هيں ـ يه صاحب اس قوم كو مٹانے نكلے هيں جسے اس وقت ختم نهيں كيا جا سكا تها جب يه صرف تين سو تيره كے هندسے تكـ محدود تهى ـ صاحب اس قوم كو خوراكـ كا لالچ دينے كى كوشش كر رهے هيں جن كے اقا صلى الله عليه وسلم پيٹ پر پتهر بانده كر خندقيں كهوداكرتے تهے ـ ان لوگوں كو ؛بمبوں كى ماں ؛ كے ڈراوے دے رهے ەيں شەيد كى ذندگى جنكا ايمان ەے ـ
يه قوموں كو ازاد كروانے نكلے هيں حالنكه اس بەتر كام تو يه هے كه اپنے ملكـ ميں موجود ان لاكهوں بچوں كو باپ ڈهونڈ كر ديں جو اپنے باپ كے نام سے بهى لاعلم ەيں ـ

سورة انفال ٦٥ تا ٦٧

يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ حَرِّضِ الْمُؤْمِنِينَ عَلَى الْقِتَالِ إِن يَكُن مِّنكُمْ عِشْرُونَ صَابِرُونَ يَغْلِبُواْ مِئَتَيْنِ وَإِن يَكُن مِّنكُم مِّئَةٌ يَغْلِبُواْ أَلْفًا مِّنَ الَّذِينَ كَفَرُواْ بِأَنَّهُمْ قَوْمٌ لاَّ يَفْقَهُونَ

اے نبى !شوق دلا مسلمانوں كو لڑائى كاـ اگر ەوں تم ميں بيس شخص ثابت ،غالب ەوں دوسو پراگرەوں تم ميں سوشخص ،غالب ەوں ەزاركافروں پر،اس واسطے كه وه لوگ سمجهـ نەيں ركهتے ـ

الآنَ خَفَّفَ اللّهُ عَنكُمْ وَعَلِمَ أَنَّ فِيكُمْ ضَعْفًا فَإِن يَكُن مِّنكُم مِّئَةٌ صَابِرَةٌ يَغْلِبُواْ مِئَتَيْنِ وَإِن يَكُن مِّنكُمْ أَلْفٌ يَغْلِبُواْ أَلْفَيْنِ بِإِذْنِ اللّهِ وَاللّهُ مَعَ الصَّابِرِينَ

اب بوجهـ ەلكا كيا اللّه نے تم پر،اور جاناكه تم ميں سستى ەے ـ سو اگر ەوں سو شخص ثابت ،غالب ەوں دوسو پر اور اگر ەوں تم ميں ەزار شخص ، غالب ەوں دو ەزار پر اللّه كے حكم سےاور اللّه ساتهـ ەے ثابت رەنے والوں كے ـ

مَا كَانَ لِنَبِيٍّ أَن يَكُونَ لَهُ أَسْرَى حَتَّى يُثْخِنَ فِي الأَرْضِ تُرِيدُونَ عَرَضَ الدُّنْيَا وَاللّهُ يُرِيدُ الآخِرَةَ وَاللّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ

نهيں چاهيئے نبى كو كه اس كے ەاں قيدى اويں جبتكـ نه خون كرے ملكـ ميں ـ تم چاهتے هو جنس دنيا كىـ اور اللّة چاەتا ەے اخرت ـ اور اللّة زور آور ەے حكمت والاـ

جمعرات، 22 ستمبر، 2005

تعويذوں كى مار

لو جى ەور سنو ! ـ ذات كے كميار اور بننے چلے هيں جرنلسٹ اور تجزيه نگار!ـ
يه جهارے كميار نے نئى چهوڑى هے كه امريكه ميں انے والا طوفان قرطينه اور اب يه والا نيا طوفان ريٹا بهى القائده كى كارستانى هے ـ
جهارا كميار كەتا هے كه اس دفعه القائده نے تعويذوں كى مار مارى هے ـ
جهارا كميار كى سارى قابليت اخبارى تعليم تكـ محدود ەے ـ اور پاكستان ميں اردو اخبار پڑهنے والا هر ادمى جانتا هے كه كالا علم اور چٹا علم جادو ٹونا روحانى بابا بنگالاى بابا تعويذ اور چلے كے علموں ميں پاكستان كے مقابلے كا كوئى بهى ملكـ نەيں ەـےـ ان تكنيكووں ميں پاكستان اتنى ترقى كر چكا ەے كه جس كا كوئى حد حساب نەيں
جهارے كے بقول اس دفعه دەشت گردوں نے ان روحانى باباوں كى خدمات حاصل كى ەيں ـ
ەينگ لگے نه پهٹكڑى اور رنگ بهى ائے چوكها ـ كچهـ كالے بكروں كچهـ نذر نياز سے ەى كام چل گيا ەے ـ
ميں نے كەا كه اگر مشرف صاحب كو پته چل گيا تو ان بابؤں كى خير نەيں ـ
تو جهارا كميار كهنے لگا كه
نەيں جى اگر مشرف صاحب نے ان كى طرف منه كيا ناں تو يه بابے مشرف صاحب كو بذريعه عزرائيل مكّے والى سركار كے پاس پەنچا ديں گے ـ
تم كيا سمجتے ەـو ان بابوں كو علم ەے ان كے پاس علم !!ـ

پیر، 5 ستمبر، 2005

كهسكى هويى كمنٹس

چوهدرى عادل كى ايكـ پوسٹ ميں لكهى ميرى كمنٹس

اور بهى غم هيں زمانے ميں غم عشق كے سوا
آپ كو ايكـ بات بتاؤں !! ـ
بابوں كو يه بهى پته هوتا هے كه
گالڑ (گـلهرى)كتنے مهينے ميں چهگا هوتا هے
اور
ڈهڈياں (مينڈكياں)كب پانى پيتى هيں ـ
خاور كميار
ويسے ميرى عمر ابهى چونتيس سال هے ـ
اس بات كا جواب تو دور كى بات هے
اس سوال كو بهى سمجهـ جائيں تو بڑى بات ەے ـ
جانوروں كى عمر ان كے دانت ديكهـ كر انداذه لگاتے هيں

ـ كهيرا دوندا تيگا چوگا دندى پنج ، اور چهگا

نر گلهرى كتنے مهينے ميں چهگا هوتا هے؟؟
اور
مينڈكياں كب پانى پيتى هيں؟؟
پتے كى بات ايكـ دفعه پهربتاؤں
بابے وى كدى جوان هندے سن ـ

اتوار، 4 ستمبر، 2005

مثلا

يه اشتهار صرف مثال كے طور پر لكهے هيں ـ جيسے هى نارمل خطوط انے شروع
هوں گے يه مٹا ديے جائيں گے

Example


Example


Example

ہفتہ، 3 ستمبر، 2005

روابط كى كوشش

اسلام عليكم
يەاں فرانس ميں يوں تو بەت سے مذەبى سياسى اور ديگر قسم كے رسائل شائع هو رەے ەيں ـ
مگر ايسا كوئى بهى ذريعه نەيں ەے كه اردو پڑهنے لكهنے والے سارے لوگ اپس ميں روابط كر سكيں ـ
بەت سے ٹهيكداروں كو كام كرنے والے ادميوں كى ضرورت هوتى اور دوسرى طرف بەت سے
لوگ كام ڈهونڈ رەے هوتے ەيں ـ بەت سے دوستوں كے گهر پر ان كى ضرورت سے ذياده كوئى چيز پڑى ەوتى ەے
اوروه اسے فروخت كرنا چاەتے ەيں اور دوسرى طرف كئى دوستوں كو اسى چيز كى ضرورت هوتى اور وه تلاش كررەے ەوتے ەيں كه كەيں سے سستى والى مل جائے ـ ايسے بهى لوگ ەيں كه ان كے جاننے والے يەيں كەيں يورپ ميں هيں ان كو پته بهى هے كه انكا كلاس فيلو يا ان كے گاؤں كا آدمى محلے دار يا دوست فرانس ميں هے ـ مگر ايسى كوئى جگه نەيں ەے كه جەاں اردو پڑەنے والے لوگ اپنےپيغام چهوڑ سكيں كه دوسرے اس كو پڑه كر ان سے رابطه كرسكيں ـ
اس لئے ضرورت محسوس هوئى ايكـ غير جانبدار ايسے رسالے يا انٹر نيٹ سائٹ كى جو لوگوں ميں روابط
كا ذريعه بنے پەلے تو ميں نے سوچا كه كاغذ پر چهپائى كروا كر چار صفعوں كا ايكـ رساله سا شائع كيا جائےمگرميں اكيلا اتنا خرچ برداشت نەيں كر سكتا تها ـ
مگر
ميرے پاس انٹر نيٹ په جگه تهىذاهدمصطفے نے مشوره ديا كه انٹرنيٹ كى حد تكـ بهى تو شروع كيا جاسكتا ەےـ اس لئيے جيسا بهى ەے ميں نے شروع كرديا ەے ـ مگر يه كوئ حرف اخر نەيں ەےتعميرى سوچ ركهنے والے كسى بهى مخلص دوست كے مشورے په اس ميں كوئى بهى تبديلى كى جاسكتى ەے ـ تو اب
طريقه كار
يه ەو گا كه آپ مجهے ميرے ايڈريس پر خط لكهيں يا مجهے اى ميل كريں ـ جس ميں اپ كا پيغام جو اپ شائع كروانا چاەتے ەيں واضع اور خوشخط لفظوں ميں لكها هونا چاەيے ـ ەاتهـ سے لكهے ەوئے خط ميں كاغذ كےصرف ايكـ طرف لكها ەونا چاەيے ـ اور اگر اپ اى ميل كر رەے ەيں تو كوشش كريں اردو ميں لكهيں اگر اپ كے كمپيوٹر پر اردو تحرير نەيں كيا جاسكتا توپهر پيغام رومن لفظوں ميں ەونا چاەيےـ
يه پيغام ذياده سے ذياده چار سطروں كا ەونا چاەيے اور ەر سطر سات لفظوں كى ەونى چاەيے آپ كا فون نمبر يا اى ميل كا ايڈريس ان چار سطروں كے علاوه ەوسكتا ەے ـ
مثال كے طور پريه پيغام ايسا ەو سكتا ەے ـ

بجلى كا كام جاننےوالےايكـ ادمى
كو كام كى ضرورت ەےـ ميرا كام
كا تجربه تقريبا ايكـ سال ەے ـ صرف
سنگل فيزـ رابطه نمبر
0662 83 25 01
[[http://www.lesdiplos.com/روابط كى كوشش]]

پیر، 29 اگست، 2005

كميار

ەاں جى كمەار! ذات كے ەم كهوكهر ەوتے ەيں ليكن آباء نےكمەار كا پيشه اختيار كيا اس لئے ەم كمەار كەلواے!ميسوپوٹوميا كى تەذيب برتن بنانے والوں كى تەذيب تهى آج كے برطانيه ميں باغبانى كے بعد دوسرا بڑا شغل برتن بنانا ەے !كهنڈرات سےنكلنے والے مٹى كےبرتن ماڈرن انسان كے لئے اس دور كے انسان كى لكهى ەوى تاريخ كى كتابيں ەيں ! ميں خود برتن بنانا نەيں جانتا كه كئ نسل پەلےسےٹرانسپورٹ (خچروں اورگدهوںپه)اورتجارت ەمارا پيشه ەے آج كل ەم ٹرانسپورٹ كے لئےٹريكٹر اور ٹرالى استعمال كرتے ەيں ەمارے گاؤں ميں ذات پات كے معاملےپه كسى كو نفرت كا شكار نەيں ەونا پڑتا!شايد اس لئے كه ەمارا گاؤں صعنتى طور مضبوط علاقے كا گاؤں ەےيا پهر ميرے گاؤں كے لوگ اچهے ەيں! كل 18/7/2004 كو باتيں ەو رهى تهيں تو بهائ الله يار نے بتايا كه بهٹو صاحب نے غيرذميندار لوگوں كو ووٹ كا حق دلوايا تها!
يه اوقات تهى ەمارى كه ەم كسى گنتى ميں ەى نەيں تهے اللّه جنت نصيب كرے بهٹو صاحب كو امين!! اور هدايت دے ان كى اولاد كو

بدھ، 24 اگست، 2005

جاپان كى ياديں

غلام مصطفے
بلیک بیلٹ لینے کے بعد صرف یہی ایک فوٹو ہے کراٹے گی میں


جاپان میں
جاپان میں نی گاتا کین میں گاشک میں لی ایک تصویر


اومی کوشی
جاپان میں کوگا شہر کے ایک میلے اومی کوشی ماتسوری میں



اس تصویر میں میں ابھی بچه لگتا ہوں ـ ٹوکیو ٹاور پر

پیر، 22 اگست، 2005

تعليم دشمنى

مغل امپائر يا مغل سلطنت ! بهت سے پاكستانيوں كا فخر هے ـ برصغير كے مسلمان خود كو مغل سلطنت كا جانشين سمجهتے هيں ـ حالانكه وه غير ملكى حمله آور تهے ـ
عيش كوشى ،خدائىكے دعوے،بهائيوں كے قتل ،داشتاؤں سے بهرے محل ـ كے علاوه بهى ان مغليں كے كارنامے هيں بڑى بڑى تعميرات ، قلعے ،محلات،مقبرے، باغات ! ان كي تعميرات ديكهـ كر ادمى متاثر هوئے بغير نهيں ره سكتا ـ مغلوں كى تعميرات عجائبات عالم ميں شامل هيں ـ
مگر ان مغلوں نے كهيں كوئى يونيورسٹى يا سكول نهيں بنوايا كه كهيں اس خطے كے لوگ پڑه لكهـ نه جائيں سارے هي مغل بادشاهوں نے انتهائى ذمه دارى سے پبلكـ كو غير تعليم يافته هى ركهنے كے لئيے اقدامات كرتے رهے ـ
اس جاهليت كى سزا ان مغلوں كى اپنى اولاد كو بهى بگتنى پڑى كه مغل شهزادگان ٹهيلوں پر حليم بيچا كرتے تهے ـ
(تعليميافته گوروں يعنى برطانوى راج ميں )
قيام پاكستان كے كچهـ هى دير بعد اقتدار پر قابض هر ايكـ نے خود كو مغل بادشاه كا جاننشين مغل بادشاه شروع كر ديا ـ
هر حكمران كى كوشش رهى هے كه كسى بهى طرح پاكستان ميں تعليم نهيں هونى چاهئيے مگر تعليم كے فروغ كا ڈرامه ضرور هونا چاهئے ـ
مگر سچے بادشاه اللّه صاحب كا ايكـ اپنا نظام هے چيزوں ميں توازن ركهنے كا ـ اگر ايكـ طرف كچهـ لوگ ستاروں پر كمنديں ڈال رهے هوں تو يه نهيں هو سكتا كه دوسرى طرف لوگ آپنا گدها ريڑه بنانے كى بهى صلاحيت نه ركهتے هوں ـ
قدرت نے اپنے اس توازن كو برقرار ركهنے كے لئے پاكستان ميں جنونى مولوى پيدا كر دئيے جو مدرسے په مدرسه بنائے چلے جا رهے هيں كه لوگ كم ازكم پڑهنا لكهنا جان جائيں ـ
اور مخير كاروبارى پيدا كيے جو تعليم كى دشمن گورنمنٹ كو ٹيكس دينے ميں تو چالاكياں كر جاتے هيں مگر علم دوست مولوى كو چندا دينے ميں كوئى هچكچاهٹ نهيں كرتے ـ
ان جنونى مولويوں اور علم دوست كاروبارى لوگوں كى وجه سے پاكستانى بچوں كى تعليم كا جو قدرتى نظام چل رها هے اس كو فوجى جمهوريه كے روشن خيال نام نهاد جمهوريت والے حكمران ختم كرنے كے در پے هيں ـ
اب يه فوجى حكومت مخير كاروبارى لوگوں كو چندا دينے كے جرم ميں ان شريف لوگوں كى پگڑياں اچهالى گى ـ
جنرل مشرف كے پاكستان ميں كسى كى بهى عزت محفوظ نهيں
حتى كه جنرل مشرف كى اپنى اولاد امريكه ميں امريكه سے ملى هوئى تحفظ كى بهيكـ پر ذنده هے ـ

جمعہ، 19 اگست، 2005

ملكـ سے باهر شادى

تتلياں اڑتى هيں اور ان كو پكڑنے والے

سعى ناكام ميں اپنوں سے بچهڑ جاتے هيں

شاعر مصطفے ذيدى

جمعرات، 11 اگست، 2005

چوده اگست

انگريز سے ازاد هو گر جرنيلوں كا محكوم پاكستان ـ
فوجى جمەوريه پاكستان كو سالگره مباركـ





اگر اپ كو اپنے كمپيوٹر كے لئے يه گهڑياں چاهئيں تو مجهے اى ميل كريں
خاور كىطرف سے يه تحفه آپ سب كے لئے
ميرى اى ميل ـ ellha@yahoo.com



منگل، 9 اگست، 2005

سرخ آندهى

بغداد ميں سرخ آندهى
بى بى سى نے خبر دى هے سرخ اندهى كى ـ
بڑے بزرگ كەا كرتے تهے كه جب كەيں قتل ەوا كرتا تها تو سرخ آندهى آيا كرتى تهى ـ مگر اب اتنے قتل ەوتے ەيں كه سرخ اندهياں بهى تهكـ كر چلنا چهوڑ گئى ەيں ـ اس زمانے ميں خبريں ذبانى سفر كيا كرتى تهيں جب ريڈيو اور ٹى وى نەيں ەوا كرتے تهے ـ سرخ اندهى اس زمانے ميں ظلم ەونے كا اعلان يا خبر ەوا كرتى تهى ـ سرخ اندهى كے بعد دوردورتكـ لوگوں كو پته چل جاتاتها كه كەاں كون قتل ەوا ەے ـ
جب سے ميں نے ەوش سنبهالا ەے ميرے ارد گرد قتل تو كئى ەوئے ەيں مگر ميں نے سرخ اندهى صرف دو دفعه ديكهى ەے ـ آپ يقين كريں كه واقعى ەر طرف ايكـ سرخى سى چها جاتى ەے ـ
كالى اندهى تو تقريبا سب لوگوں نے ديكهى ەو گى گهنگور گهٹايں اپنے جلو ميں ەوا اور بارش كو لے كر چلتى ەيں تو جس طرح اندەيرا چها جاتا ەے اسي طرح سرخ اندهى ميں شام كے وقت شفق كى سرخى كى طرح كى سرخى بادلوں كے سورج كے سامنے آنے سے بنتى ەے اور ەوا ميں اڑنے والے ريت كے ذرات اس سرخى كو منعكس كركے ماحول پر ايكـ سرخى سى طارى كرديتے ەيں ايكـ عجيب طرح كى ەيبت اور رعب ەوتا ەے اس اندهى ميں ـ

پەلى آندهى



ايمن اباد سے جو سڑكـ سيالكوٹ سے ەوتى ەوئى جموں تكـ جاتى ەے يا تهى اس سڑكـ كے قريب بسنے والے لوگ اس كو ديواناں والى سڑكـ كەا كرتے تهے يا اب بهى كەتے هوں گے ـ
يه سڑكـ اتنى چوڑى ەوا كرتى تهى كه ميرى ياداشت كے مطابق ميں نے ٹاەلى كے درختوں كى سات قطاريں گنى تهيں اور ەر دو قطاروں كا درميانى فاصله اب والى پكى سڑكـ سے ڈيڑه گنا تها ـ ان بڑى بڑى ٹاهليوں كى وجه سے يەاں ەلكا سا اندهيرا چهايا رەتا تها ـ
آپ اسے ايمن آباد سے جموں تكـ كا ايكـ چهيدرا سا جنگل سمج ليں ـ
وه اتنے سارے درخت اور اس چوڑى سڑكـ كا رقبعه كيا ەوا ؟
يەاں كيا بندر بانٹ ەوئياور كون كون سے بندر اور بلياں اس بندر بانٹ ميں شامل تهے يه همارا اج كا موضوع نەيں ەے ـ
اس سڑكـ په ايكـ گاؤں دهرم كوٹ نام كا آتا ەے پرانے زمانے ميں اسے دهرم كوٹ تهانه كەا كرتے تهےـ
دهرم كوٹ گاؤں اور تهانے كے درميان اينٹيں پكانے كا ايكـ بهٹه هوا كرتا تها شائد اب ەو مگر دهرمكوٹ تهانه اب دهرم كوٹ چوكـ كەلواتا ەے ـ
تهانے كى بغل ميں اس اينٹوں والے بهٹے په ايكـ عورت كو كچهـ نامعلوم لوگوں نے گينگ ريپ كركے قتل كرديا تها ـ
اس عورت كے قتل كے دوسرے دن سرخ اندهى چلى تهى ـ بزرگوں كا كەنا ەے كه سرخ آندهى ميں شامل مقتول كا خون اس آندهى كو سرخ كر ديتا ەے ـ سرخ آندهياں ظلم كے خلاف قدرت كا ناراضگى كا اظەار ەوتا ەے ـ

دوسرى آندهى



تحصيل گوجرانواله كا ايكـ چهوٹا سا گاؤں ٹور كلاں جسے مقامى لوگ ٹوراں كەتے ەيں كسى بهى سڑكـ پر واقع نەيں ـ
گوجرانواله سے نكلنے والى دو سڑكيں پسرور روڈ اور فيروزواله روڈ ! ان دونوں سڑكوں كے درمياں كتنے ەى چهوٹے چهوٹے گاؤں بغير سڑكـ كے ەيں ـ ٹوراں بهى ان ديەاتوں ميں سے ايكـ ديەـ ەےـ
اس گاؤں ٹوراں كا ايكـ لڑكا رياست ەوا كرتا تها يه لڑكا گورنمنٹ كے كسى محكمے ميں ملازم تها لوگوں كے گهروں ميں ڈى ڈى ٹى كے مفت چهڑكاؤ اور كونين كى كڑوى گولياں بانٹنے كا كام كرتاتها ـ
رياست نام كا يه لڑكا علاقے ميں ٹوراں نام كے گاؤں كى پەچان تها ـ انتەائى ملنسار اور خوش اخلاق رياست كو بهى قتل كرديا گيا تها رياست كے قتل پر اس علاقے ميں جس نے بهى سنا كه رياست قتل هو گيا ەے ـ بے ساخته هر ادمى كے منه سے نكلا كه رياست كو قتل كرنے كى كيا ضرورت تهى ـ
رياست ٹوراں والے كے قتل پر بهى سرخ آندهى چلى تهى ـ
آج بغداد ميں كتنے ەى رياست قتل هو رهے ەيں اور كتنى ەى عورتيں ريپ هو رهى ەيں
پهر سرخ اندهياں تو ائيں گى ـ

ہفتہ، 16 جولائی، 2005

گوتم بده

گوتم بده (سدهارتهـ) ـ

اب سے تقریباً 25 سو برس پیشتر قدیم برہمنوں کے عہد کے اختتام پر کوشل کی طاقتور سلطنت کے کچھ مشرق میں ساکیہ کشتری آباد تھے۔ یہ ایک چھوٹی سی قوم تھی۔ سدھوون ان کا راجہ تھا۔ کپل وستو اس کی راجدھانی تھی۔ یہ شہر بنارس سے سو میل کے قریب شمال میں واقع تھا۔ سدھوون بڑا بہادر جنگجو راجہ تھا اور چاہتا تھا کہ میرے بعد میرا بیٹا گوتم بھی ایسا ہی بہادر اور جنگجو ہو۔ اس نے اسے سپہ گری کے سب فن سکھائے مثلاً نیزہ بازی، تیر اندازی اور شمشیر زنی۔ گوتم جب 18 برس کا ہوا تو ایک خوبصورت شہزادی مسماۃ یشورا سے اس کی شادی ہوئی اور شادی کے دس سال بعد ان کے ہاں ایک لڑکا پیدا ہوا۔
گوتم (اصلى نام سدهارتهـ)جب پيدا هوا تو نجوميوں نے اس كے باپ كو بتايا تها كه يه بچه پڑا هو كر يا تو بادشاه بنے گا يا پهر سادهو مگر جو بهى بنے گا اس جيسا دنيا ميں كوئى اور نه هو گا اگر بادشاه هوا تو بەت بڑا بادشاه هو گا اور اگر سادهو بنا تو رەتى دنيا تكـ اس كا نام رەے گا ـ
اس لئے اس كے باپ نے اس كو بادشاه بنانے كے لئےاسے سپہ گری کے سب فن سکھائے مگر قدرت نے سدهارتهـ كو سادهوبنانا تهاـ
گوتم بچپن ہی سے غور و فکر اور سوچ بچار میں رہا کرتا تھا۔ زبان کا میٹھا اور دل کا نرم تھا۔ تمام مخلوقات پر ترس کھاتا اور رحم کرتا تھا۔ شکار کو چلا ہے تیر چلے پر چڑھا ہوا ہے شست لگا لی ہے، کچھ کچھ کمان بھی تان لی ہے، مگر دیکھتا ہے کہ بھولا بھالا ہرن بے خبر بے کھٹکے ننھے ننھے دانتوں سے پتلی پتلی گھاس کی پتیاں کھا رہا ہے بس وہیں کمان کو چھوڑ دیا ہے اور فکر میں ڈوبا ہوا ہے! افسوس! اس معصوم جانور نے میرا کیا بگاڑا ہے؟ یہ کسی کو ستاتا ہے جو میں اسے ماروں، ۔ تیر ترکش میں ڈال لیا ہے۔ اور واپس گھر چلا گیا ہے۔ گھڑ دوڑ میں شامل ہے، گھوڑے کو ہوا کر رکھا ہے، اغلب ہے کہ بازی جیتے گا مگر منزل پر پہنچنے سے ذرا پہلے گھوڑے کے ہانپنے اور زور زور سے سانس لینے کی طرف دھیان جا پڑا ہے، بس وہیں رک گیا ہے اور پشیمان ہے افسوس! کیا تفریح کی خاطر اس بے گناہ وفادار جانور کو ایسا ستانا روا ہے؟ تفریح جائے مگر گھوڑے کو دکھ دینا واجب نہیں ہےـ گھڑ دوڑ سے علیحدہ ہے اور گھوڑے کو چمکارتا دلاسا دیتا ایک طرف لے گیا ہے۔
ایک روز بہار کے موسم میں باپ نے کہا کہ آئو باہر چلو، دیکھو درختوں اور کھیتوں پر کیا جوبن چھایا ہوا ہے۔ باپ بیٹا آہستہ آہستہ چلے جاتے تھے جدھر دیکھتے تھے بہار کا عالم تھا۔ باغ ہی باغ نظر آتے تھے۔ کونٹیں چل رہی تھیں۔ زمین پر ہری ہری گھاس کا فرش تھا۔ ہری بھری کھیتیاں لہلہا رہی تھیں۔ درختوں کی شاخیں میوے کے بوجھ سے جھکی جاتی تھیں۔ گوتم اس منظر کو دیکھ کر بہت خوش ہوا۔ پھر کیا دیکھتا ہے کہ ایک کسان ہل چلا رہا ہے بیل کمزور ہے اس کی پیٹھ پر زخم ہے۔ کسان تک تک کر رہا ہے اور اس کو لکڑی سے مارے چلا جاتا ہے اور بیل ہے کہ بچارا درد کا مارا بیٹھا جاتا ہے۔ پھر کیا دیکھا کہ باز نے کبوتر پر جھپٹا مارا اور اسے کھا گیا۔ آگے بڑھ کر اسی قسم کی ایک اور بات دیکھی۔ ایک کبوتر مکھیوں پر ٹھونگ مارتا ہے اور دانے سے چبا رہا ہے۔ ان سب باتوں نے باغ اور بہار کے تماشے کا مزہ تلخ کر دیا۔ دل میں یہ خیال آیا کہ دنیا ہیچ ہے جی کا بیری جی ہے۔ کیسا تماشا؟ چل اپنے گھر۔
اس کے کچھ دنوں بعد گوتم نے خواب میں دیکھا کہ ایک مرد پیرانہ سال ہے جو بڑھاپے کی کمزوری سے نہ چل سکتا ہے۔ نہ کھڑا ہو سکتا ہے اور کوئی خواب ہی میں گوتم سے کہتا ہے کہ ایک دن تو بھی ایسا ہی بوڑھا اور بے کس ہو جائے گا۔ پھر دیکھا کہ کوئی بیمار ہے درد سے کراہ رہا ہے اور وہی آواز کہ رہی ہے کہ اے گوتم! ایک دن تو بھی بیمار ہوگا اور اسی طرح درد سے کراہے گا۔ پھر دیکھا کہ ایک شخص زمین پر پڑا ہے، موت سے ٹھنڈا ہو چکا ہے اور جسم کے اعضا لکڑی کی طرح سخت ہو چکے ہیں اور وہی آواز کہہ رہی ہے کہ گوتم! ایک دن تجھے بھی مرنا ہے۔
اس کے کچھ عرصے بعد گوتم ماں، باپ، بیوی، بچے، راج پاٹ کو چھوڑ کر گھر سے نکل گیا۔ اب اس کی عمر 30 سال کے قریب تھی۔ اپنے لمبے لمبے بال، جیسے کہ کشتری رکھا کرتے تھے، منڈوا ڈالے۔ محلوں میں جو قیمتی لباس و زیورات پہنا کرتا تھا اتار دئیے اور فقیروں کے سے پھٹے پرانے چیتھڑے پہن لیے۔ سات برس تک بن میں جوگ اختیار کر کے اس فکر و تلاش میں پھرا کہ دنیا میں جو دکھ درد اور گناہ ہے اس سے کس طرح رہائی ہو۔ راجگڑھ کے قریب جو مگدھ کی راجدھانی تھی، جنگل میں دو برہمن عبادت گزار رہتے تھے۔ گوتم ان کے پاس گیا لیکن وہ اس کو دنیا کے غم و اندوہ سے بچنے اور سچی خوشی حاصل کرنے کی راہ نہ بتا سکے۔ پھر پٹنہ سے جنوب کو گیا کے پاس گھنے جنگلوں میں چلا گیا۔ 6 برس برابر تپسیا (بمعنى عبادت) کی، فاقے کئے اور جسم کو مارا۔ آخر معلوم ہوا کہ ابدی خوشی حاصل کرنے کا طریقہ یہ بھی نہیں ہے۔ بدھ گیا کا مندر اس بات کی یادگار ہے کہ یہاں گوتم بدھ نے 6 برس تپسیا کی تھی۔
آخر وہ دن آیا کہ گوتم بدھ نے راحت و تسکین حاصل کی۔ گوتم بده گيا ميں ایک املى کے پیڑ کے نیچے دھیان دھرے بیٹھا تھا، اس کے دل میں ایک قسم کی روشنی محسوس ہوئی، دل کو اطمينان سا آگيا۔ معلوم ہو اکہ فاقے اور جسم کو ایذا دینے سے کچھ نہیں ہوتا۔ دنیا اور عقبی، میں خوشی اور راحت حاصل کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ نیک اور پاک زندگی بسر کر۔ سب پر رحم کر اور کسی کو مت ستا۔ گوتم کو یقین ہوگیا کہ نجات کا سچا راستہ یہی ہے۔
اب گوتم نے بدھ یعنی عارف کا لقب اختیار کیا، بن سے نکلا اور دنیا کی تعلیم و تلقین کی غرض سے دیس بدیس پھرنا شروع کیا۔ پہلے کاشی یعنی بنارس پہنچا۔ یہاں مرد عورت سب کو دھرم سنایا۔ تین مہینے کے قیام میں 60 چیلے جمع کیے اور ان کو روانہ کیا کہ جائو ہر طرف دھرم کا چرچا کرو۔ پھر راج گڑھ گیا۔ یہاں راجا پرجا سب اس کے دھرم کے پیرو بنے۔ پھر کپل وستو میں گیا جہاں اس کا بوڑھا باپ راج کرتا تھا، وطن سے رخصت ہونے کے وقت وہ شہزادہ تھا، اب جو واپس آیا تو زرد لباس' ہاتھ میں کاسئہ گدائی، سر منڈا جوگی تھا، باپ، بیوی، بیٹے اور ساکیہ قوم کے سب مرد عورتوں نے اس کا وعظ سنا اور چیلے ہوگئے۔ اس کے 45 برس کے بعد یعنی 80 برس کی عمر تک بدھ دیو نے جابجا پھر کر اپنے مت کو پھیلایا۔ اس طرح سے سارا مگدھ اور کوشل یعنی بہار اور صوبه جات متحدہ آگرہ و اودھ میں یہ مت عام ہوگیا۔

راجه هرش

بُدھ کے زمانے کا آخری بڑا راجہ ہرش ہے۔ یہ 606ء سے 648ء تک ستلج اور جمنا کے درمیان کے ملک پر حکمراں تھا۔ ا سکی راجدھانی تھانیسر تھی، جس کا قدیم نام کرکشیتر ہے۔ اس نے شلادتیہ کا لقب اختیار کیا۔ یہ شمالی ہند کا مہاراجہ ادھراج تھا۔ اس کے بعد ہندو راجائوں میں کوئی ایسا زبردست نہیں ہوا جو اس تمام ملک کا مہاراجہ ادھراج کہلایا ہو۔ پنجاب سے لے کر آسام تک گنگا اور سندھ کی وادیوں کی کل سلطنتوں کے فتح کرنے میں اسے تیس سال لگے تھے۔ اس نے دکن کو فتح کرنے کی بھی کوشش کی لیکن کامیاب نہ ہوا۔
اس کے راج کے پورے پورے حالات موجود ہیں۔ اول ایک چینی سیاح ہیوان سانگ کے لکھے ہوئے جو کچھ عرصے تک اس کے دربار میں رہا تھا دوم ایک فاضل برہمن بہ بان کے لکھے ہوئے ایک کتاب کی صورت میں جس کا نام ہرش چرت (ہرش کے حالات) ہے۔ اگرچہ ہرش خود بدھ تھا تاہم برہمنوں اور ہندو دھرم کی ایسی عزت کرتا تھا جیسی اپنے دھرم کی۔ قنوج میں بدھ مت کے سو وہار تھے تو ہندوئوں کے مندر دو سو تھے۔ 634ء میں شلا دتیہ نے ایک بڑی مجلس منعقد کی۔ اس میں 21 راجا شامل تھے جنہوں نے اس کو اپنا مہاراجہ ادھراج تسلیم کیا۔ اس مجلس کے موقع پر راجا کے سامنے برہمن پنڈتوں اور بدھ بھکشوئوں میں مذہبی بحث مباحثے ہوئے۔ پہلے دن مجلس میں بدھ کی مورت نصب کی گئی۔ دوسرے دن سورج کی۔ تیسرے دن شو جی کی۔ 75 دن تک شلا دتیہ نے سب کی دعوت کی۔ پھر اپنا تمام دھن دولت، زیور اور محل کا ساز و سامان بلا امتیاز بدھ مت والوں اور برہمنوں کو بانٹ دیا اس کے بعد شاہی لباس بھی اتار دیا۔ اور فقیرانہ چیتھڑے پہن لیے جیسے کہ بدھ نے باپ کے محل سے رخصت ہونے پر پہنے تھے۔ ہر 5 سال کے بعد شلادتیہ اسی طرح کرتا تھا۔ گیا کے قریب نالند میں ایک بہت بڑا دهم شاله تھا جہاں دس ہزار بھکشو کتب دینی قانون اور طب کے مطالعہ میں اوقات بسر کرتے تھے

ەن لوگ

ہن 450ء سے 528ء تک
گپت خاندان کی تباہی ان منگول قوموں کے ہاتھوں ہوئی جو ہن کہلاتی تھیں اور 450ء کے قریب پنجاب میں آکر آباد ہوئیں۔ یہاں سے چل کر یہ لوگ جمنا کی تلہٹی میں پہنچے اور اس وقت کے گپت راجہ پر غالب آئے۔ ان کے سردار کا نام تورمان تھا۔ اس نے 500ء کے قریب اپنے آپ کو مالوے کا راجہ بنایا اور مہاراجہ کہلوایا۔ اس کے بعد اس کا بیٹا مہر گل گدی پر بیٹھا۔ یہ بڑا بیرحم تھا۔ اس نے اتنے آدمی قتل کرائے کہ آخرکار مگدھ کا راجہ بالا دتیہ وسط ہند کے ایک راجہ یسودھرمن کی مدد سے بڑی بھاری فوج لے کر اس کے مقابلے پر آیا۔ اور 528ء میں ملتان کے قریب کہروڑ کے مقام پر شکست دے کر اس کو اور اس کی فوج کو ہند سے نکال دیا۔ ہن ہند میں سو برس کے قریب رہے۔ بعض ہن کہیں آباد ہوگئے۔

گپت خاندان

بُدھ کے زمانے کے اختتام پر مگدھ میں اس خاندان کی حکومت ہوئی جو گپت کے نام سے مشہور ہے 300 سے 600 عیسوی تک تین سو برس کے قریب اس کا دور دورہ رہا۔ اس خاندان کے دو راجا بہت مشہور ہوئے ہیں: ایک سمدر گپت اور دوسرا چندرگپت بکرماجیت۔ اس چندر گپت کے ساتھ بکرماجیت کا لقب اس لیے شامل کیا گیا تھا کہ اس میں اور چندر گپت موریا میں فرق ہو سکے۔ جو اس سے سات سو برس پیشتر مگدھ میں راج کرتا تھا۔
سمدر گپت326ء سے 375ء تک بڑا طاقتور راجہ ہوا ہے۔ یہ ایک بڑی بھاری فوج لے کر تمام وسط ہند میں ہوتا دکن میں پہنچا۔ اور جن راجائوں کے ملک سے گزرا ان سب کو مطیع کیا۔ اس نے ان ملکوں کو اپنی قلمرو میں تو نہ ملایا مگر وہاں سے لوٹ کا مال بہت لایا۔ بڑا طاقتور راجہ ہونے کے علاوہ شاعر بھی تھا اور بین باجا بڑا عمدہ بجاتا تھا۔ الہ آباد کی لاٹھ پر جو اشوک کا کتبہ موجود ہے اس کے نیچے ایک کتبہ اس کا بھی ہے۔ یہ اشوک کے کتبے کے بہت بعد کا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ سمدر گپت کل شمالی ہند کا راجہ تھا اور دکن کے راجا اس کو اپنا مہاراجہ ادھراج مانتے تھے۔
گپت خاندان کے راجائوں کا سمت ہی جدا ہے۔ یہ 319 سے شروع ہوتا ہے۔ گپت راجا بدھ مت کے پیرو نہ تھے۔ وہ وشنو جی کی پرستش کرتے تھے۔ انہوں نے قدیم ہندو دھرم کو فروغ دینے کی بڑی کوشش کی۔ مدت تک گپت خاندان کے راجائوں نے ستھین کا مقابلہ کیا جو جوق جوق ہند میں چلے آرہے تھے اور ان کو گنگا کی وادی میں نہ آنے دیا۔
چندر گپت ثانی 375ء سے 413ء عیسوی تک سمدر گپت سے بھی زیادہ طاقتور ہوا۔ اس نے بکرماجیت کا لقب اختیار کیا جس کے معنی ہیں سورج کی طاقت والا۔ ہندو مصنفوں کی کتابوں میں یہ اس نام کا سب سے مشہور راجہ پایا جاتاہے۔ یہ بڑی بھاری فوج لے کر شمال مغرب کی طرف دریائے سندھ کی وادی پنجاب، سندھ، گجرات اور مالوے میں جہاں صدیوں سے سکا مغربی حاکموں کی عملداری چلی آتی تھی پہنچا اور ان کے ملک فتح کر کے اپنی قلمرو میں ملا لئے۔
خیال کیا جاتا ہے کہ یہ وہی بکرماجیت ہے جو ہند دھرم کا بڑا حامی اور علوم و فنون کا قدر دان مشہور ہے۔ اس کو بکرم اور بکرم اعظم بھی کہا جاتا ہے۔ یہ تمام ہندو راجائوں سے زیادہ مشہور ومعروف ہے۔ جیسا بہادر تھا ویسا ہی عالم بھی تھا۔ اس کے دربار میں 9 صاحب کمال تھے جو اپنے زمانے کے نورتن کہلاتے تھے۔ ان میں اول نمبر پر کالی داس شاعر تھا جس کی نہایت مشہور نظمیں یہ ہیں۔ سکنتلا، رگھوونش، میگھ دوت، کمار سنبھو، ایک رتن امر سنگھ تھا جس کی سنسکرت کی منظوم لغات ہند کے ہر مدرسے میں مشہور و معروف ہے۔ چوتھا اھنونتری بید تھا۔ پانچواں در رچی تھا جس نے پراکرت یعنی اپنے وقت کی عام مروجہ سنسکرت کی جو قدیم کتابی سنسکرت سے بہت مختلف ہےكى صرف و نحو لکھی ہے۔ چھٹا رتن مشہور منجم دارا مہر تھا۔ پنج تنتر کی حکایتیں بکرم ہی کے عہد میں تصنیف ہوئی تھیں۔ بعد میں ان کا ترجمہ عربی فارسی میں ہوا اور پھر بہت سی مغربی زبانوں میں۔ بکرم اور اس کے عہد کی اور بھی بہت سی حکایتیں ہیں جو آج تک ہند کے گاؤں گاؤں میں بیان کی جاتی ہیں۔
بکرم کے عہد میں بدھ مت آہستہ آہستہ صفحہ ہند سے مٹتا جاتا تھا۔ کالی داس کی تصنیفوں سے معلوم ہوتا ہے کہ شوالوں اور ٹھاکر دواروں کو بہت مانا جاتا تھا۔ اور ان میں ہندوئوں کے دیوتائوں کی پوجا ہوتی تھی۔ راجہ شوجی کو پوجتا تھا مگر بدھ مت والوں کے ساتھ بھی مہربانی سے پیش آتا تھا۔ اس کے دربار کے نورتنوں میں سے ایک بدھ تھا۔

موريا خاندان

چندر گپت موریا )321 سے 204 قبل مسیح تک کے زمانے میں مگدھ ، شمالی ہند کی ایک نہایت عظیم الشان سلطنت ەوا كرتى تهى۔ کہتے ہیں کہ گنگا کی وادی سے لے کر پنجاب یعنی آریا ورت تک تمام دیس اس کا تابع تھا اور قدیم آریا کی وہ سب ریاستیں جو بدیہہ، پانچال، کوشل اور کاشی کے ناموں سے مشہور تھیں مگدھ کی قلمرو میں شامل تھیں۔ چندر گپت کا خاندان موریا خاندان کہلاتا ہے کیونکہ اس کی ماں کا نام مرا تھا۔ تیس سال کے قریب اس نے پاٹلی پتر میں راج کیا۔ باختر یعنی ترکستان کے بادشاہ سلوکس نے اس کے ساتھ صلح کر کے اس کو اپنی بیٹی بیاہ دی تھی۔ ایک یونانی سفیر مسمی بہ مگاستھینز آٹھ سال تک اس کے دربار میں رہا۔ اس نے مگدھ دیس اور ہندوئوں کے رسم و رواج کا حال جو خود دیکھا یا سنا تھا بہت مفصل لکھا ہے۔ وہ لکھتا ہے کہ، پاٹلی پتر ایک بہت بڑا شہر تھا۔ 9 میل لمبا اور دو میل چوڑا۔ مگدھ کے راجہ کی فوج میں 6 لاکھ پیادے تھے اور چالیس ہزار سوار۔ راجہ بڑی خوبی اور دانائی سے حکومت کرتا تھا۔
چندر گپت کا پوتا اشوكـ(272 سے 232 ق م) تک جو اس خاندان کا تیسرا راجہ ہوا ہے 272ق ۔ م میں گدی پر بیٹھا۔ اس نے چندر گپت سے بھی زیادہ شہرت پائی۔ اس کو اکثر اشوک اعظم کہا جاتاہے کیونکہ اپنے عہد کا سب سے بڑا اور طاقتور راجہ تھا۔ جوانی میں اشوک لڑائی کا بڑا مرد تھا۔ کہا کرتا تھا کہ کلنگ )اڑیسہ( کو فتح کر کے اپنی سلطنت میں شامل کر لوں گا۔ چنانچہ تین سال لڑا اور کلنگ کو فتح کر لیا۔ کہتے ہیں کہ اس جنگ میں ہزاروں لاکھوں کا خون ہوتا ہوا دیکھ کر اشوک کے دل میں ایسا رحم آیا کہ یک بیک طبیعت بالکل بدل گئی کہنے لگا کہ اب میں بدھ کی تعلیم پر چلوں گا اور کبھی کسی سے لڑائی نہ کروں گا۔ بدھ مت کو اپنے تمام راج کا مذہب قرار دیا اور اپنا نام پر یاد رشی یا حبیب خدا رکھا۔ اس کا ایک بیٹا بھکشو اور بیٹی بھکشنی ہوگئی۔ اس نے دونوں کو سیلون )سنگلدیب( بھیجا کہ وہاں بدھ مت کی تبلیغ کریں۔ اب دوسری مجلس کو منعقد ہوئے سوا سو سال سے زیادہ ہوگئے تھے اور بدھ مت میں کئی قسم کی تبدیلیاں نمایاں ہونے لگی تھیں۔ ان کی تحقیق کے لیے 242ق ۔ م میں اشوک نے اس مذہب کے ایک ہزار بزرگوں اور عالموں کی تیسری بڑی مجلس منعقد کی۔ مراد یہ تھی کہ بدھ مت کی تعلیم بعد کی بدعتوں اور آمیزشوں سے پاک ہو کر اپنے بانی کی اصلی تعلیم کے مطابق ہو جائے۔ پاٹلی پتر میں یہ مجلس منعقد ہوئی۔ بدھ مت کی تمام حکایتیں اور روایتیں پالی زبانی میں لکھ لی گئیں۔ کچھ اوپر دو ہزار برس سے بدھ مت کے جو شاستر جنوبی ایشیا میں جاری ہیں۔ وہ اسی مجلس کے مرتب کیے ہوئے ہیں، بدھ دھرم کی تبلیغ کے لیے اشوک نے کشمیر، قندھار، تبت، برہما، دکن اور سیلون )سنگلدیپ( میں بھکشو روانہ کئے۔
اشوک نے 14 احکام جاری کئے اور جابجا سارے ہند میں پتھر کی لاٹھوں پر کندہ کرا دئیے۔ ان میں سے کئی آج تک موجود ہیں۔ ایک الہ آباد میں ہے، ایک گجرات کے گرنار پربت پر ہے۔ ان احکام میں بدھ کی تعلیم کی بڑی بڑی باتیں سب آ جاتی ہیں۔ مثلاً رحم کرو، نیک بنو، اپنے دل کو پاک کرو، خیرات دو۔ ایک کتبے کی عبارت میں لکھا ہوا ہے کہ اشوک نے کلنگ دیس فتح کیا اور پانچ یونانی بادشاہوں سے صلح کی۔ ان میں سے تین مصر یونان خاص اور شام کے بادشاہ تھے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اپنے عہد میں اشوک کیسا مشہور اور ذی شان راجہ تھا۔
؁ 232قبل مسیح میں اشوک نے وفات پائی۔ اس کے چالیس سال کے بعد موریا خاندان کا بھی خاتمہ ہوا۔ موریا کے بعد دو خاندان مگدھ میں ایسے ہوئے جن کے ناموں کے سوا اور کچھ حالات معلوم نہیں ہوئے ہیں۔ اشوک سے دو سو برس بعد مگدھ کا راج اندھر خاندان کے ہاتھ آیا۔

جمعہ، 15 جولائی، 2005

زبانوں كا اختلاف

طوفان فرو ہو جانے کے بعد جب حضرت نوح عليہ السلام کشتی سے نکلے تو دوسرے جانداروں کے علاوہ ان کے ہمراہ تين بيٹے بھی تھے۔ سام، عام اور يافث۔ اس وقت يہ لوگ ايک ہی زبان بولتے تھے۔ توريت ميں لکھا ہے کہ تمام روئے زمين پر ايک ہی زبان اور ايک ہی بولی تھی اور ايسا ہوا کہ مشرق کی طرف سفر کرتے کرتے ان کو ملک سنعار ميں ايک ميدان ملا اور وہ وہاں بس گئے اور انھوں نے آپس ميں کہا۔ او ہم اينٹيں بنائيں اور ان کو آگ ميں خوب پکائيں سو انھوں نے پتهر کی جگہ اينٹ سے اور چونے کی جگہ گارے سے کام ليا۔ پھر وہ کہنے لگے کہ آو ہم اپنے واسطے ايک شہر اور ايک برج جس کی چوٹی آسمان تک پہنچے، بنائيں اور يہاں اپنا نام کريں۔ ايسا نہ ہو کہ ہم تمام روئے زمين پر پراگندہ ہو جائيں ـ اور خداوند اس شہر اور اس برج کو جسے بنی آدم بنانے لگے ديکھنے کو اترا اور خداوند نے کہا۔ ديکھو يہ لوگ سب ايک ہيں اور ان سبھوں کی ايک ہی زبان ہے۔ وہ جو يہ کرنے لگے ہيں تو اب کچھ بھی جس کا وہ ارادہ گے کريں ان سے باقی نہ چھوٹےگا۔ سو آو ہم وہاں جا کر ان کی زبان ميں اختلاف ڈاليں تا کہ وہ ايک دوسرے کی بات سمجھ نہ سکيں۔ پس خداوند نے ان کو وہاں سے تمام روئے زمين پر پراگندہ کيا۔ سو وہ اس شہر کے بنانے سے باز آئے اس لئے اس شەر کا نام بابل ہوا۔ کيونکہ خداوند نے وہاں په ساری زمين کی زبان ميں اختلاف ڈالا اور وہاں سے خداوند نے ان کو تمام روئے زمين پر پراگندہ کيا۔

چربه تحارير

چوده جولائى فرانس ميں چهٹى تهى ـ پندره كو اصل ميں تو كام تها ـ مگر سائٹ په خام مال نه هونے كى وجه سے پندره كو بهى چهٹى هو گى ـ يعنى جمعرات جمعه ەفته اور اتور چار چهٹياں هو گئيں اس لئے سوچا كه كچهـ لكها جائے كه ٹائپ كرنے كے لئے وافر وقت ميسر هے ـ مگر يه سب تحارير جو كه ەندوستان كى ماضى قريب اور ماضى بعيد كے متعلق هيں چربه تحارير ەيں ميں صرف ان كو ٹائپ كرنے كا گناه گار هوں

راجپوت

آریائوں اور قدیم ہندوئوں کے زمانے میں جو راجہ ہندوستان کے حکمران ہوتے تھےـ وہ کھشتری تھے۔ بدھ مت کے زمانے میں بھی جیسا کہ بدھ خود تھاـ اکثر راجا اور سردار کھشتری ہوتے تھے۔ گو بعض مثلاً چندر گپت اور اشوک شودر تھے بدھ مت کے عہد کے وسط سے لے کر مسیح کی پیدائش سے تقریباً پانچ سو سال بعد تک شمال مغربی ہند کے علاقوں میں ستھین یا سکا قوم کے راجا راج کرتے تھے۔راجہ بکرما جیت کے زمانے سے ستھین اور کھشتری راجائوں اور ان کی سلطنتوں کا ذکر سننے میں نہیں آتا۔بجائے ان کے 600ء سے 1200ء تک جدھر نظر جاتی ہے راجپوت راجائوں کے راج دکھائی دیتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ راجپوت کون تھے؟راجپوتوں کا اپنا دعوی ـ یہ ہے کہ ہم کھشتری ہیں۔ رام چندر جی اور سری کرشن سے اور قدیم زمانے کے دوسرے کھشتری خاندانوں سے ہمارے نسب نامے ملتے ہیں۔ اور بعض عالموں کا یہ خیال ہے کہ یہ دعوی صحیح ہے۔ لفظ راجپوت کے معنی ہیں راجائوں کے بیٹے یا راجائوں کی اولاد زمانہ سلف کے کھشتری واقعی راجائوں کے بیٹے پوتے ہوتے تھے اور ایسا بھی سمجھ میں نہیں آتا کہ دفعتاً کھشتریوں کی طاقتور قوم کا خاتمہ ہوگیا ہو۔بعض عالموں کا یہ خیال ہے کہ راجپوت ستھین یا سکا قوم سے ہیں جو سن عیسوی کے ابتدائی پانچ سو سال میں بڑی کثرت سے شمالی مغربی ہند میں آکر آباد ہوئی۔ اور اس فرقہ اہل یونان سے ہیں جو بھگشی میں آباد تھا۔ اصل حقیقت یہ معلوم ہوتی ہے اور اڑیسہ کی خاص خاص قومیں مثلاً وہ جو دہلی، قنوج اور ہندوستان کے مرکز میں حکمراں تھیں اصل کھشتری نسل سے ہیں اور بعض دیگر قومیں جن کا نام ابتدا میں راجپوتا نے. مالوے اور گجرات میں سننے میں آتا تھا بعد میں سکا کے خیل کے خیل حملہ آور ہو کر آباد ہوئے خدا کی اولی. نسل سے ہیں۔ راجپوت بڑی شریف اور اعلی، قوم سے ہیں۔ بڑے بہادر ہیں۔ چونکہ یہ لوگ جنگ و جدال کے بڑے مرد ہیں وہ بدھ کے رحم دلانہ دھرم کو پسند نہیں کرتے تھے کیونکہ بدھ کہتا ہے کہ نہ کسی جاندار کو مارو اور نہ ستائو۔ انہوں نے جہاں تک ہوا برہمنوں کی مدد کی، بدھ مت کو دبایا اور پرانے ہندو مذہب کو از سر نو پھیلایا۔ جس زمانے کا ہم ذکر کر رہے ہیں اس میں بہت سے راجپوت راجا ہوئے ہیں۔ اس سبب سے کہہ سکتے ہیں کہ 600ء سے 1200ء تک راجپوتوں کی سلطنت کا زمانہ ہے۔ آریائی عہد میں گجرات کو سری کرشن کی دوار کا کہتے تھے۔ بعد میں اس کا نام سورٹھ یا سوراشٹر ہوا۔ یہاں 416ء سے لے کر تقریباً300 سال تک بلبھی خاندان کے راجا راج کرتے تھے۔ جب چینی سیاح ہیوان سانگ سوراشٹر میں آیا تو اس نے دیکھا کہ یہ ایک زبردست سلطنت ہے، جہاں بلبھی راجائوں کا راج ہے۔ ملک خوشحال اور مالدار ہے اور دور دراز ملکوں سے تجارت ہوتی ہے۔ 746ء سے مسلمانوں کے زمانے تک سوراشٹر میں راجپوتوں کی عملداری تھی۔ یہ چالوکیہ کہلاتے تھے۔ انھلواڑہ یا انھل پٹن جس کو اب فقط پٹن کہتے ہیں، ان کی راجدھانی تھی۔
مالوے میں بکرما جیت کی اولاد حکمراں رہی۔ اس خاندان کا سب سے بڑا راجہ بکرماجیت کے بعد شلا دتیہ نامی تھا۔ جس کا حال چینی سیاح ہیوان سانگ کے سفرنامے سے معلوم ہوتا ہے۔ ان کے بعد راجپوتوں کا دور شروع ہوا۔ بعد کے زمانے میں مالوہ راجپوتوں کی نہایت زبردست سلطنتوں میں شمار ہوتا تھا۔ اڑیسہ قدیم زمانے میں اندھر کی سلطنت کے نام سے مشہور تھا۔ 474ء سے 1132ء تک یہاں کیسری خاندان کے راجپوت حکومت کرتے تھے۔ بھوونیشور ان کا پایہ تخت تھا جہاں انہوں نے بڑے بڑے خوبصورت اور شاندار مندر بنائے۔ اس خاندان کے اول راجہ کا نام یتاتی کیسری تھا۔ اس کی راجدھانی کے نام سے ظاہر ہے کہ گو زمانہ سلف میں اڑیسہ میں بدھ مت کا دور تھا اس وقت وہاں سارے ملک میں ہندو مذہب پھیلا ہوا تھا اور شوجی کی پرستش ہوتی تھی۔کیسری راجائوں کے بعد گنگا پتر خاندان کا دور شروع ہوا۔ یہ بھی راجپوت تھے۔ 1132ء سے 1534ء تک انہوں نے اڑیسہ پر حکومت کی۔ 1560ء میں یہ ملک مسلمانوں نے لے لیا۔ گنگا پتر وشنو کی پرستش کرتے تھے۔ پوری میں جگن ناتھ جی کا جو مشہور مندر ہےـ وہ اسی خاندان کے ایک راجہ کا بنایا ہوا ہے۔دریائے نربدا سے لے کر دریائے کرشنا تک سارے دکن میں سات سو برس یعنی 500ء سے 1200ء تک چالوکیہ خاندان کے راجپوت حکومت کرتے تھے۔ اس خاندان کی دو شاخیں تھیں ـ مشرقی شاخ کا پایہ تخت دریائے گوداوری پر راج مندری تھا۔ مغربی شاخ کا پایہ تخت مہاراشٹر میں کلیان تھا۔ اب ان راجائوں کے فقط نام ہی نام باقی ہیں۔ میسور کے ملک میں 900ء سے 1310ء تک بلال خاندان کے راجپوت فرمانروا تھے۔ ان کا پایہ تخت دوار سمدر تھاـ جہاں انہوں نے ہلے بید کا مشہور مندر تعمیر کیا۔ مسلمانوں نے اس خاندان کو شکست دی اور خود ملک کے حاکم اور فرمانروا بنے۔تلنگانہ میں تقریباً 1100ء سے لے کر 1323ء تک ککاتی خاندان کے راجپوت راج کرتے تھے۔ ان کا پایہ تخت وارنگل تھا۔ 1323ء میں مسلمانوں نے وارنگل لے لیا اور اس کو اپنا دارالخلافہ بنا کر گولکنڈے کی سلطنت قائم کی۔ بنگالے میں پانچ سو برس تک پال اور سین خاندانوں کے راجا راج کرتے تھے۔ 800ء کے قریب سے لے کر 1050ء تک پال راجائوں نے راج کیا اور 1050ء سے 1300ء کے قریب تک سین خاندان کا دور دورہ رہا۔ اس کے بعد یہ ملک بھی مسلمانوں نے فتح کر لیا۔دیوگری واقع مہاراشٹر میں 1100ء کے قریب سے ١٣٠٠ء کے قریب تک یادو بنسی راجپوت راج کرتے تھے۔ یہ کہتے تھے کہ ہم سری کرشن کی نسل سے یادو بنسی کھشتری ہیں۔ 130٠ء کے قریب مسلمانوں نے دیوگری کو فتح کر کے اس کا نام دولت آباد رکھ دیا۔راٹھورـ چوہان اور تنوار راجپوتوں کے مشہور خاندان ہوئے ہیں۔ 1190ء کے قریب قنوج ـ اجمیر اور دہلی میں ان کی حکومت تھی۔

هندو دهرم اور مذهب اسلام

عہد مغليہ ميں اکبر کے دور حکومت سے مسلم سماج کی ترتيب و تشکيل کا ايک نيا دور شروع ہوا۔ ملک کی اقتصادی حالت کو بہتر بنانے اور ملک ميں سياسی استحکام اور سرکاری کارخانوں ميں ہر فن کے صنعت کاروں کو ملازم رکھا۔ اس کا نتيجہ يہ نکلا کہ ہندوستان کے ان قديم باشندوں کو جنھيں مشرف بہ اسلام ہونے کے بعد مسلم سماج ميں مناسب جگہ نہ ملی تھی، اب مل گئی۔ ليکن اس کا يہ بھی نتيجہ برآمد ہوا کہ مسلم سماج پيشہ ورانہ طبقوں ميں تقسيم ہوگيا۔ ہندووں کی قديم طبقاتی تقسيم نے مسلم سماج کے لئے ايک نمونہ پيش کيا اور اسی طرز پر مسلم سماج ميں پيشہ ور طبقے نماياں نظر آنے لگے۔ نسلی امتياز کی وجہ سے مسلم سماج کی تنظيم رفتہ رفتہ ہندووں کے ذات پات کے نظام ميں رنگنے لگی۔ رفتہ رفتہ ہر پيشہ ور طبقے نے اپنے پيشے کو موروثی بنا ليا، اپنی مخصوص رسميں قائم کرليں اور شادی بياہ کے تعلقات ہم پيشہ لوگوں کے دائرے ميں محدود کرلئے۔ يہ تقسيم ہمارے زمانے تک موجود ہے۔ منير مير حسن نے لکھا تھا کہ لکھنوئ کے سيد خاندانوں ميں ايسا بھی ہوتا تھا کہ محدود دائرے ميں مناسب رشتہ نہ ملنے کی وجہ سے بعض لڑکياں اپنی زندگی ناکت خدائی کی حالت ميں گزارتی تھيں۔

ہندوستان کے مسلمان بيٹے اور بيٹی کی شادی ميں چند رسموں کو چھوڑ کر جيسے آگ کے گرد چکر لگانا، باقی سب رسميں ہندووں کی طرح کرتے ہيں جيسے لڑکے اور لڑکی کو زرد کپڑے پہنانا اور کلائی ميں ريشمی کلاوا باندھنا عقہ سے فارغ ہونے تک دولھا کا ہاتھ ميں لوہے کا ہتھيار رکھنا اور عورتوں کی سٹھنی لگانا، آرايش کے ساتھ دولھا کو دلھن کے گھر لے جانا خالص ہند سے مخصوص ہے۔دور حاضر ميں بھی قصبات اور ديہات کے رہنے والے زراعت پيشہ مسلمانوں ميں بچپنے کی شادی ہندووں سے اخذ کی گئی رسم کی نشان دہی کرتی ہے۔ شادی بياہ کے رسوم مسلم سماج ميں اس حد تک سيرايت کر گئے تھے کہ مسلمانوں کو اس بات کا احساس بھی نہ رہا تھا کہ يہ رسميں غير اسلامی تھيں۔ سودا نے حضرت قاسم کی شادی کی رسوم کے ذکر ميں
ہندوستانی رسموں کو اس اندازے سے بيان کيا ہے۔ گويا يہ رسميں عربوں ميں پائی جاتی تھيں مثلاََ ساچق منہدی، برات، رقص و سورود، دھنگانا، رخصتی کے وقت رنگ کھيلنا وغيرہ۔ مسلمانوں ميں جہيز کا سامان بھی بهت حد تک ويسا ہی ہوتا تھا جيسا کہ ہندووں ميں رائج تھا۔

اٹاوہ ميں مسلمانوں کا ايک قبيلہ تھا جو شب بازی کے فن ميں بڑی مہارت رکھتا تھا۔ البيرونی نے ہندووں کے نٹوں کے فرقے کا ذکر کيا ہے۔ مسلمانوں ميں بھی نٹوں کا فرقہ موجود تھا۔ اس فن ميں دلچسپی اس حد تک پہنچ گئی تھی کہ مسلمان عورتيں اس فن کی تعليم حاصل کيا کرتی تھيں۔ شہنائی بائی نامی ايک عورت نے اس فن ميں خاصی مہارت حاصل کرلی تھی۔ مسلمانوں ميں بہروپيوں کا فرقہ بھی ہندووں کی دين ہے۔ قديم ہندوستان ميں بازی گروں کا فرقہ پايا جاتا تھا۔ مسلمانوں ميں بھی بازی گروں کی ايک جماعت پائی جاتی تھی۔بھگت بازی : ہندووں کے اس فن و پيشے کو مسلمانوں نے اپنا ليا تھا۔ اور اس کے ذريعے بسر اوقات کرتے تھے۔ دہلی ميں بھگت مسلمانوں کا ايک قبيلہ تھا اور تقی نامی ايک شخص اس قبيلے کا سردار تھا۔ لکھنوئ ميں اس فن نے بہت ترقی پائی۔ واجد علی شاہ کو رہس سے خاص دلچسپی تھی يہاں امانت لکھنوی نے اندر سبھا لکھی۔ اسی طرح کٹھ پتلی کا کھيل مسلمانوں نے اپنا ليا اور اس کا نام شب بازی رکھا۔ عہد مغليہ ميں شب بازی ايک اہم مشغلہ تھا۔ اٹاوہ ميں مسلمانوں کا ايک قبيلہ تھا جو شب بازی کے فن ميں بڑی مہارت رکھتا تھا۔ البيرونی نے ہندووں کے نٹوں کے فرقے کا ذکر کيا ہے۔ مسلمانوں
ميں بھی نٹوں کا فرقہ موجود تھا۔ بابر نے مداريوں کا ذکر کيا ہے، اس فرقہ کے لوگ خود کو مسلمان صرف اس وجہ سے کہتے تھے کہ ان کے يہاں ختنے کی رسم اداہوتی تھی۔ان کی شادی کی رسميں ملّا اور قاضی ادا کرتے تھے۔ بس اسلام سے ان کا اتنا ہی واسطہ تھا۔ ان کی بقيہ رسميں وہی تھيں جن پر وہ مشرف بہ اسلام ہونے سےپہلے عمل کرتے تھے۔

بچے کی ولادت سے موت کے موقع تک عمل ميں آنے والی بعض رسميں ايسی ہيں
جو خالص ہندوستان کی زمين سے ہيں۔ عورت کی حاملہ ہونے اورپهر بچے کی ولادت کے بعد کی
جتنی بھی رسميں ہندوستانی مسلمانوں ميں مروج ہيں وہ سب کی سب ہندوستانی ہيں۔
جنھيں مسلمانوں نے جوں کا توں اپنا ليا ہے۔ ان ميں بعض کے نام تو وہی ہندوستانی ہيں
مگر طريقے بدل گئے ہيں اور بعض ميں برائے نام فرق کرديا گيا ہے۔ مثلاََ تيجا ہندووں ميں، فاتحہ
كے پھول مسلمانوں ميں اگرچہ پھول کا لفظ يہاں بھی مشترک ہے کيوں کہ ہندووں ميں پھول مردے کی جلی ہڈيوں کو کہتے ہيں۔ جو تيسرے دن چن کر مرگھٹ سے جمع کی جاتی

مہاجر مسلمان بعض تفريحی مشاغل اپنے ساتھ لائے تھے ليکن رفتہ رفتہ انھوں نے خالص ہندوستانی کھيل تماشے اپنی تفريحی طبع کے لئے اپنا لئے۔ ان کو عربى يا فارسی کے نام دے کر اور بعض ضمنی تبديلياں کرکے انھيں اسلامی بناليا۔ مثلاََ پتنگ بازی، عہد مغليہ ميں مسلمانوں ميں پتنگ بازی کا عام رواج تھا۔ اٹھارويں صدی کے خواص و عوام مسلمان دونوں پتنگ بازی سے خاص طور پر دلچسپی رکھتے تھے۔ انند رام مخلص نے دہلی ميں پتنگ بازی کے عام رواج کا ذکر کيا ہے، دہلی ميں آج بھی پتنگ بازی کا رواج عام ہے۔ نہ صرف دہلی بلکہ شمالی ہندستان کے تقريباََ سارے بڑے شہروں کے مسلمان پتنگ بازی ميں خاصى دلچسپی ليتےتھے۔ ميسز مير حسن علی نے لکھنوئ کے مسلمانوں ميں پتنگ بازی سے خالص دلچسپی کا ذکر کيا ہے۔ آگرہ ميں بھی پتنگ بازی کے مقابلے ہوا کرتے تھے۔ نظير اکبر آبادی نے ان مقابلوں کا تفصيلی ذکر کيا ہے۔ نوابين و امرائے بنگال اودھ پتنگ بازی ميں دلچسپی ليتے تھے۔ نواب آصف الدولہ کو پتنگ بازی کا بڑا چسکا تھا۔
گھريلو کھيلوں ميں شطرنج، چوسر، چوپڑ خالص ہندوستانی کھيل
تھے۔ عہد مغليہ کے بادشاہ امرا اور عوام ان کھيلوں سے بڑی دلچسپی لےتے تھے۔ اکبر نے فتح
پور سيکری ميں فرش پر شطرنج کی بساط بنوائی تھی اور مہروں کی جگہ غلام عورتوں
کو کھڑا کرکے وہ شطرنج کھيلا کرتا تھا۔ شاہی حرم کی مستورات شطرنج کھيلا کرتی تھيں۔ زيب
النساء کو چوسر کھيلنے سے بڑی دلچسپی تھی۔ ان کھيلوں کے علاوہ چندل مندل اور گنجفہ کا
کھيل مسلمانوں نے ہندوستان سے اخذ کيا تھا۔0پرندوں اور جانوروں کی لڑائياں :مختلف قسم کے پرندوں کو آپس ميں لڑانے کا شوق ہر طبقے کے مسلمانوں ميں پايا جاتا تھا۔
ان ميں مرغ بازی، بٹير بازی، تيتر بازی، گلدم بازی، لوا بازی، طوطے بازی اور درندوں ميں ہاتھی، شير، ہرن چيتے، سور تيندوے، سانڈ، مينڈھے اور دوسرے جانوروں کو آپس ميں لڑا کر اس منظر سے مسلمان محفوظ ہوا کرتے تھے۔ اسپير نے لکھا ہے کہ شام کے چار بجے محل کے سامنے کئی آمراء جمع ہوجاتے اور اپنے مرغ لڑا کر بہادر شاہ ظفر کا دل بہلاتے تھے اور غالباََ يہ روزانہ کا شعل تھا۔ لکھنوئ کے عوام و خواص اپنی فارغ البالی کی وجہ سے اپنا يشتر وقت پرندوں کو لڑانے اور محفوظ ہونے ميں صرف کرتے تھے۔ دوسرے تفريحی مشاغل ميں غبارے بازی، ہنڈولا، بيل گاڑيوں کی دوڑ کے مقابلے اور درياوں ميں چراغاں کرنا شامل تھے۔ اسی طرح بچوں اور لڑکوں کے بہت سے کھيل خالص ہندوستانی تھے اور ان کے نام بھی ہندی ميں تھے۔ انشاء الّلۃ نے ان کھيلوں کا تفصيلی ذکر کيا ہےـ

منگل، 12 جولائی، 2005

اردو محفل

ايك دعوت تهى شموليت كى ايكـ فورم ميں جو مشتعمل هے سارا اردو پر ـ جناب قدير احمد رانا كى طرف سے ـ
We Have Created World's First Complete Urdu Forum. Please join us at
http://www.urduweb.org/mehfil
اردو كى يه محفل سجائى هے جناب اجمل صاحب كے بيٹے زكريا ـ قدير احمد رانا ـدانيال اور ان كے دوستوں نے مل كر ـ مقصد ەے ان كا اردو كى انٹر نيٹ پر ترقى كى كوشش ـ
ان سب لوگوں كى ان كوششوں كا كوئى فائده هو گا يا نەيں ؟ يا اگر هو گا بهى تو كيا هو گا ! ميرے خيال ميں كوئى انقلاب آنے سے تو رەا !
مگر مجهے ان لوگوں كے اس قدم سے كوئى اختلاف نەيں ـ كيون كه ميں جانتا هوں كه اس طرح كے جنونى كام شروع فضول نظر اتے ەيں مگر ضرورى نەيں كه فضول ەى هوں !
ماركونى اور گراەم بيل كى شروع ميں فضول نظر انے والى كوششيں آج اپ سب كے سامنے ريڈيو اور ٹيلى فون كى شكل ميں موجود ەيں ـ
صديوں سے انسان كى پرندوں كى طرح اڑنے كى كوشش رائٹ برادرز كى پەلى اڑان تكـ فضول كوششوں كى ايكـ تكرار ەى تو تهى ـ
ايكـ دفعه چلنے كے بعد مسلسل چلتے رهنے والى مشين پر تجربات ،مسٹر سٹيفن كے بهاپ والے انجن كى ايجاد تكـ كيا تهے؟
اكر آپ كو كبهى طوكيو ميں اكيهابارا جانے كا اتفاق هو (اكي ها بارا دنيا كى سب سے بڑى اور ايڈوانس اليكٹرونس ماركيٹ هے ) اكيهابارا اسٹيشن سے شوواتهورى (تهورى يا دواورى بمعنى گذرگاه )تكـ كى جگه ميں آپ كو بهت سى تنگ كلياں اور ان گليوں ميں اليكٹرونس پارٹس كى دوكانيں مليں گى ـ ان گليوں ميں ميں نے گلاس كے پيندے جتنے موٹے عدسوں كى عينكيں لگائے ەونكـ سے جاپانى لڑكوں كو اكثر پهرتے ديكها هے ـ
عمومآ يه لڑكے كم آميز هوتے ەيں جلدى كسى سے كهلتے نەيں ەيں يه وه لوگ ەيں جو پارٹ ٹائم موكرياں كر كے اور ان پيسوں سے مختلف پرزے خريد كر تجربات ميں لگے رهتے ەيں ان لوگےں كى تكنيكى آپروچ اتنى هے كه فوجى جمهوريه پاكستان ميں ره كر آپ تصوّر بهى نهيں كر سكتے ـ ميرے ايكـ ايسے هى جاپانى دوست نے حيران هو كر مجهـ سے پوچها تها كه تم ريڈيو بهى نەيں بنا سكتے
اس كا لەجه ايسا تها كه جيسے اپ كسى سے پوچهـ رهے هوں كه يعنى تم خود سےكپڑے بهى نەيں پەن سكتے ـ
اور ايسے هى جاپانى لوگوں كى كوششوں كا نتيجه ايك ترقى يافته اور مضبوط جاپانكى صورت ميں آپ كے سامنے هے ـ
زكريا ٠رانا٠دانيال جيسے لوگوں كو ضرورت هے هله شيرى كى داد اور حوصله آفزائى كى ـ
چلتے چلو دوستو هم تمهارے ساتهـ هيں ـ

اتوار، 10 جولائی، 2005

جيت؟؟؟

وقت خود ەى يه بتائے گا كه ميں زنده ەوں
كب وه مرتا ەے جو زنده رهے كردار كے ساتهـ
آ ميرے دوست ذرا ديكهـ !! ميں ەارا تو نەيں ؟
ميرا سر بهى تو پڑا ەے ميرى دستار كے ساتهـ
سعد اللّه شاه صاحب كے يه شعر نوائےوقت كے مستقل كالم نگار عرفان صديقى صاحب نے آپنے كالم نقش خيال ميں لكهے ـ
آ ميرے دوست ذرا ديكهـ !! ميں ەارا تو نەيں ؟
ميرا سر بهى تو پڑا ەے ميرى دستار كے ساتهـ

جمعہ، 8 جولائی، 2005

محمود غزنوى!! هيرو يا ڈاكو؟

لڑائی کا گھمسان ہوا۔ راجپوت پسپا ہوئے۔ محمود نے آگے بڑھ کر نگر کوٹ کے مندر کو لوٹا۔ چاندی سونے موتیوں اور جواہرات کے انبار جو مدتوں سے دیندار اور بااعتقاد ہندوئوں کے چڑھائے ہوئے مندروں میں جمع تھے' سب لوٹ کھسوٹ کر غزنی میں لے گیا۔

غزنی پہنچ کر محمود نے ایک بڑی بھاری دعوت کا سامان کیا۔ تمام افغانوں کو بلوایا۔ تین دن تک ان کی ضیافت کی۔ ہند سے جو زر و جواہر ریشم و کمخاب سونا اور چاندی لوٹ کر لایا تھاـ نمائش کے طور پر چوکیوں پر سجا کر سب کو دکھایا۔ سرداروں اور امرا کا تو کہنا ہی کیا ہے' ان کو تو نہایت قیمتی تحفے دئیے اور غریب سے غریب افغان بھی ایسا کوئی نہ تھا کہ دعوت سے خالی ہاتھ گیا ہو اور ایک معقول انعام نہ لے گیا ہو۔
جى هاں محمود غزنوى ٩٩٧ء سے ١٠٣٠ء پاكستان ميں پڑهايا گيا هے كه
محمود بہادر سپاہی تھا۔ اپنے ہم عصروں سے زیادہ ظالم اور بیرحم نہ تھا۔ لڑائی میں جو قیدی ہاتھ آتے تھےـ ان کو قتل نہیں کرتا تھا۔ سلطنت افغانستان کا انتظام بڑی خوبی کے ساتھ کرتا تھا۔ ہندوستان کی دولت سے اس نے غزنی میں بڑی بڑی عالیشان عمارتیں بنائیں اور اس کی رونق بڑھائی ـ بہت سے شاعر اور باکمال دور دراز ملکوں سے آکر غزنی میں آباد ہوئے۔
فردوسی شاعر کے ساتھ ايكـ کارروائی ۔ محمود نے فردوسی سے شاہنامہ لکھنے کی فرمائش کی اور صلے میں فی شعر ایک اشرفی دینے کا وعدہ کیا۔ تیس برس کی محنت کے بعد فردوسی ساٹھ ہزار شعر لکھ کر لایا۔ محمود ایک کتاب کے لیے ساٹھ ہزار سونے کی شرفیاں دینے سے ہچکچایا اور اشرفیوں کی جگہ چاندی کے ساٹھ ہزار دینار دینے لگا ـ فردوسی نے دینارلے كر آپنے اس خادم كو دے دئيےجس نے يه شاه نامه لكهنے كے دوران عظيم فردوسى كى خدمت كى تهى اور خود فردوسى مایوس ہو کر فارس میں اپنے وطن کو چلا گیا۔ کچھ دنوں بعد محمود اپنی حرکت پر پشیمان ہوا اور ساٹھ ہزار سونے کی اشرفیاں دے کر قاصد کو فردوسی کے پاس بھیجا۔ مگر اب کیا ہونا تھا ادھر محمود کا قاصد اشرفیوں کی تھیلیاں لیے شہر میں داخل ہوا ادھر معلوم ہوا کہ فردوسی کا جنازہ قبرستان کی طرف چلا جا رہا ہے۔

تیس برس کی عمر میں محمود تختِ شاہی پر جلوہ گر ہوا۔ جب تک بارش کا موسم رہا اور درے برف سے صاف نہ ہوئےـ خاموش بیٹھا رہا۔ اس کے بعد اپنی فوج لے کر ہند پر چڑھ آیا۔ بہت سے اونٹ اور گھوڑے لوٹ کا مال لاد کر لے جانے کو اپنے ساتھ لایا۔ دیکھا کہ جے پال جو اس کے باپ سے لڑ چکا تھاـ اس کے مقابلے پر لڑنے کو موجود تها لیکن محمود اور اس کے افغان ہمراہیوں نے جے پال کو بھگا دیا اور بہت سا قیمتی مال و زر لوٹ کر غزنی لے گئے۔
انند پال نے دیکھا کہ ہندوستان کے سر پر ہر وقت خطرہ لگا ہوا ہے۔ پس اس نے اجین ـ گوالیارـ قنوج ـ دہلی اور اجمیر کے راجائوں کو پیغام دیا اور کہا کہ محمود سالِ آئندہ میں ضرور پھر حملہ کریگاـ آپ آئیں اور میرے ہمراہ ہو کر اس کا مقابلہ کریں۔ انہوں نے منظور کیا اور راجپوتوں کے دل كےدل پنجاب میں داخل ہوئے۔ لیکن شمالی سرد ملکوں کے افغان ہند کے گرم میدانوں کے راجپوتوں سے طاقتور تھے۔ لڑائی کا گھمسان ہوا۔ راجپوت پسپا ہوئے۔ محمود نے آگے بڑھ کر نگر کوٹ کے مندر کو لوٹا۔ چاندی، سونے، موتیوں اور جواہرات کے انبار جو مدتوں سے دیندار اور بااعتقاد ہندوئوں کے چڑھائے ہوئے مندروں میں جمع تھےـ سب لوٹ کھسوٹ کر غزنی میں لے گیا۔
اور ايكـ دعوت كا انتظام كيا جس دعوت كا ذكر اس پوسٹ كے دوسرے پيرے ميں كيا گيا ەے ـ

ایسی ایسی ترغیبوں اور تحریصوں سے محمود افغانوں کو ہند پر چڑھا لاتا تھا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ اس کی ہمت کا دریا طغیانی پر تھاـ ہر بار جو قدم تھا آگے ہی آگے پڑتا تھا۔ جہاں کہیں کسی مالدار شہر یا مندرکا پتہ پایا وہیں اپنی فوج کو لے کر جا طوفان بپا کیا۔ مندر ڈھائےـ بت توڑےـ پجاریوں کے سینکڑوں برس کے جوڑے ہوئے مال و اسباب لوٹے۔ راجپوت راجا آپس میں لڑتے تھے مگر مندروں کے مال کو ہاتھ نہ لگاتے تھے۔ اس سبب سے مدتوں کی آمدنی سے ہر مندر میں دولت کے انبار اکٹھے ہوگئے تھے۔ ترک ایرانی اور افغان اس مال و دولت کے لوٹنے پر ادھار کھائے بیٹھے تھے۔ جہاں اس نے ہند پر حملہ کرنے کے لیے فوج کے جمع ہونے کا حکم دیا وہیں یہ لوگ آندھی کی طرح اٹھے چلے آئے۔ پھر محمود کے ہر حملے میں فوج کی کثرت نہ ہوتی؟ تو کیا ہوتا؟
محمود١٠٢٤ء میں آخری بار ہند پر حملہ آور ہوا اور سومناتھ کے مندر پر پہنچا۔ یہ گجرات دیس میں ایک بہت پرانا اور بڑا مندر تھا جو اپنی بے شمار دولت کے سبب تمام ہند میں مشہور تھا۔ سندھ کے ریگستان میں ساڑھے تین سو میل کا دور دراز سفر طے کر کے محمود اس مندر کے سامنے آن موجود ہوا اور ہندوئوں کی اس بڑی فوج کو شکست دی۔ جو مندرکی حفاظت کے لیے جمع کی گئی تھی۔ جب یہ مندر کے اندر داخل ہوا تو ڈرتے کانپتے پجاریوں نے التجا کی کہ اگر آپ ہمارے سومناتھ دیوتا کی مورت کو جوں کا توں چھوڑ دیں تو ہم اس کے عوض آپ کو بہت سا روپیہ دینے کو تیار ہیں۔ لیکن ان کی بات نہ مانی ـ
یہاں سے افغانستان واپس جانے کے کچھ ہی عرصے بعد محمود مر گیا۔ یہ خود ہند ميں كبهى نہیں ٹھیرا ــ

منگل، 5 جولائی، 2005

پستول پردار

Example

اتوار، 19 جون، 2005

اردو میڈیم کے پڑھے لوگ

اردو میڈیم کے پڑھے ہوئے لوگ
ہمارے گاؤں میں ایک ڈالکٹر صاحب ہیں ڈاکٹر یونس صاحب ۔
ڈاکٹر یونس ایم بی بی ایس،۔
ان ڈاکٹر صاحب کے خاندان میں کئی ڈاکٹر ہیں ،۔
کچھ ڈنگر ڈاکٹر اور کچھ میڈیسن ڈاکٹر اور پٹواری ، مطلب یہ کہ ڈاکٹر صاحب کئی نسلوں سے پڑھی لکھی فیملی سے تعلق رھتے ہیں ،۔
ڈاکٹر صاحب کا بیٹا گوجرانوالہ کے کسی انگلش میڈیم سکول میں پڑھنے جاتا تھا ،۔
پچھلے دنون ڈاکٹر صاحب نے اپنے اس بیٹے کو انگلش میڈیم سے خارج کروا کر گورمنٹ پرائمری سکول تلونڈی موسے خان میں داخل کروا دیا ہے ،۔
ڈاکٹر صاحب کے اس عمل سے کسی نے ڈاکٹر صاحب سے پوچھا کہ
اج جب کہسب لوگ اپنے بچوں کو بڑے بڑے ناموں والے سکولوں  داخل کروا رہے ہیں ،۔
اس دور میں اپنے بچوں کو گورمنٹ پرائمری سکول میں  داخل کروانا کچھ احمقانہ سا فیصلہ تو نہیں ہے ،۔
تو ڈاکٹر صاحب کا کہنا تھا کہ
میں خود ڈاکٹر محمد ہونس ایم بی بی ایس اس گورمنٹ پرائمری سکول کا پڑھا ہوا ہوں ،۔
اور اج ایک ڈاکٹر ہون ، میرا چاچا ڈاکٹر ہیں اور اسی سکول کے پڑھے ہوئے ہیں ، میرے والد پٹواری ہیں اور اسی سکول کے پڑھے ہوئے ہیں ،م۔
جناب ممتاز خان صاحب سابق سیکرٹری وزارت خزانہ جن کے ایک روپے کے نوٹوں پر دستخط ہوتے تھے اسی پرائمری سکول کے پڑھے ہوئے تھے ،۔
مشہور شاعر عبدلحمید عدؔم بھی اسی سکول کے پڑھے ہوئے تھے ،۔
ہم سب اس سکول کی ننگی زمین پر ٹاٹوں پر بیٹھ کر تعلیم یافتہ ہیں ،۔
اسی سکول میں ٹاٹوں پر بیٹھ کرتعلیم لئے لوگ اج بڑے بڑے کاروباری ، ڈاکٹر انجنئیر ہیں

مثلا محمد اسحق كميار ـ ڈاكٹر اصغرمسترى ـ باؤ مختار احمد عرف باؤ كميار ـ حاجى محمد صادق كميار ـ غلام مرتضے كميار عرف حاجى ننها كميار ـ بهلّـا كميار ـ حاجى اسماعيل تڑوائى ـ
كيا خيال هے آپ كا ڈاكٹر محمد يونس ايم بىبىايس صاحب كے ان خيالات كے متعلق؟؟؟؟

بكرمى كيلنڈر كى وضاحت

ميرى بكرمى مهينے والى پوسٹ پر جناب اجمل صاحب نے اسلام اباد سے تبصره لكها هے ـ جناب اجمل صاحب سرد گرم چشيده ايكـ ريٹائرڈ انجئنير هيں ـ اور بلاگروں كو كچهـ نه كچهـ لكهنے پر اكساتے رهتے هيں ـ جناب اجمل صاحب لكهتے هيں ـ

بکرمی جنتری بھی اب موسموں کے حساب سے صحیح نہیں رہی ۔ ہاڑھ جو پورا نام ہساڑھ ہے اس مہینہ میں بہت بارشیں ہونا چاہیئں جس سے دریاؤں میں ہاڑھ آ جائے اسی لئے اس مہینہ کو ہاڑھ کا مہینہ بھی کہتے ہیں مگر اب ایسا نہیں ہے۔

مندرجہ ذیل یو آر ایل پر اردو میڈیم کے ایک طالب علم نے کچھ انکشاف کیا ہے ۔ ذرا دیکھئے تو یہ اردو میڈیم طالب علم کیا کہتا ہے ۔
http://hypocrisythyname.blogspot.com/2005/06/urdu-medium-school.html


پنجاب كے جس گاؤں ميں ميں پلا بڑها هوں وهاں بهى فلڈ يعنى سيلاب كو هڑ كهتے تهے يا شائد اب بهى كهتے هيں ـ همارے گاؤں ميں ايك ميله اٹهاره هاڑ كو لگا كرتا تها ـ بچپن ميں بهت انتظار رها كرتا تها اس ميلے كا ـ اس لئے مجهے هاڑ مهينه ياد هے ـ يا پهر اس اٹهاره هاڑ والے ميلے كى وجه سے مجهے بكرمى جنترى كا علم هوا ـ اور يه بهى ياد هے كه هاڑ مهينے ميں هڑ يعنى سيلاب آيا كرتا تها ـ اب اگر اس دور ميں بارشوں كى ٹائمنگ بگڑ گئى هے تو يه بكرمى جنترى اور موسموں كا تغير نهيں هے ـ بلكه بڑهتى هوئى آلودگى كى وجه هے ـ اوزون كى تەـ ميں سوراخ بهى اسى آلودگى كى وجه هے ـ اور اس وجه كى ذيلى وجوهات هيں موسموں كے مزاج ميں تلخى يعنى گرميوں ميں بهت گرمى اور سرديوں ميں بهت سردى ـ
عيسوى جنترى ميں اگر هر چار سال بعد فرورى كے 29 دن يه كريں تو سو سال ميں يه بنتے هيں 30دن يعنى تين سو سال ميں تين مهينے ـ يعنى اگر تين سو سال ميں سے تين مهينے كا نكاس كر ديا جائے تو فرورى مهينه ــ چلچلاتى گرمى اور جولائى كڑكڑاتى سردى ميں بهى آسكتا تها ـ زمين كا سورج كے گرد چكر 365دن كى بجائے 365دن كچهـ گهنٹے كچهـ منٹ اور كچهـ سيكنڈ ميں مكمل هوتا هےـ جس كا علم هونے كے بعد عيسوى كلينڈر ميں ليپ كا سال بنايا گيا تها ـ مگر بكرمى كلينڈر ميں ايسا كوئ سال نهيں هوتا بهر كيا وجه هے كه گرمياں جيٹهـ هاڑ ميں هى اتى هيں حبس ساون بادوں ميں هى هوتا هے اورسردى پوه ماگ ميں هى پڑتى ەے ـ
كهتے هيں كه زمانه قبل از مسيح ميں بهى ەندو برهمنوں كو آسٹرونومى كا علم تها وه جانتے تهے كه زمين گول هے اور سورج كے گرد گومتى هے ـ ان لوگوں كو سرج گرهن اور چاند گرهن كے ٹهيك ٹهيكـ وقت كا بهى علم هوتا تها ـ مگر عام لوگوں كو يه سورج اور چاند كا امتحان اور پته نهيں كيا كچهـ بتا كر اور خود كو بهگوان كا قريبي دوست اور سورج اور چاند كى اس سزا كو ختم كروا سكنے كى سفارش كے لئے كواليفائي هونے كا بتاكر چندا بٹورا كرتے تهے ـ يه ەندو جو كه ەمارے برصغير كے لوگوں كے آباء بهى تهے (باهر سے انے والے حمله آوروں كى اولاد مغل چغتائى ابدال غورى وغيره وغيره هندوں كى اولاد نهيں هيں وه جو چاهے خود كو سمجتے رهيں ) ـ انهوں نے هميں يه كلينڈر بنا كر ديا تها ـ ـ ليكن همارے آباء،ميں ايك بڑا نقص تها اور شائد آج بهى هم ديسى لوگوں ميں هے كه هم بهت بخيل واقع هوئے هيں هم علم كى بات كسى كو بتانے كى بجائے ساتهـ قبر ميں لے جاتے هيں هم ميں بڑے بڑے سيانے حكيم هوئے هيں جو مردے ميں جان ڈال ديتے تهے مگر انهوں نے يه نسخے كسى كو بتائے نهيں مگر ساتهـ لے كر مر كئے ـ ايك انگريز هيں كه جس كے پاس جو علم تها يا هے كو كتاب ميں لكهـ ديا كه سب لوگ پڑه ليں اور اگر كوئى اس علم كو لے كر اگے جا سكتا هے تو ترقى كرے ـ اورانگريز كى اس روايت نے آج دنيا كو ترقى كے اس مقام پر بەنچا ديا هے كه معلوم انسانى تاريخ ميں اس كى مثال نهيں ملتى ـ

بدھ، 15 جون، 2005

بكرمى كيلنڈر

اج هاڑ مهينےكي ايكـ تاريخ هے اور سال هے ـ 2062بكرمى ـ عيسى عليه سلام كے پيدا هونے سے بهى 57سال پهلے بنايا گيا بكرمى كيلنڈر موسموں كے كسى بهى تغير كے بغير آج بهى چل رها هے ـ ياد رهے عيسوى كيلنڈر عيسى عليه سلام كے اسمان پر اٹهائے جانے كے پانچ سو سال بعد بنايا گيا اور كچهـ عرصه بعد ليپ كا سال شامل كر كے اسے موڈيفائى كيا گيا تها ـ مگر بكرمى سال جس ميں كچهـ مهينے بتيس دن كے بهى هوتے هيں اج تكـ بغير كسى موڈيفكيشن كے موسموں كے مطابق چل رها هے ـ
راجه بكرم اجيت جنكے نام سے يه كلنڈرشروع هوا یہ وہی بکرماجیت ہے جو ہند دھرم کا بڑا حامی اور علوم و فنون کا قدر دان مشہور ہے۔ اس کو بکرم اور بکرم اعظم بھی کہا جاتا ہے۔ یہ تمام ہندو راجائوں سے زیادہ مشہور ومعروف ہے۔ جیسا بہادر تھا ویسا ہی عالم بھی تھا۔ اس کے دربار میں 9 صاحب کمال تھے جو اپنے زمانے کے نورتن کہلاتے تھے۔ ان میں اول نمبر پر کالی داس شاعر تھا جس کی نہایت مشہور نظمیں یہ ہیں۔ سکنتلا' رگھوونش' میگھ دوت' کمار سنبھو- ایک رتن امر سنگھ تھا جس کی سنسکرت کی منظوم لغات ہند کے ہر مدرسے میں مشہور و معروف ہے۔ چوتھا اھنونتری بید تھا۔ پانچواں در رچی تھا جس نے پراکرت یعنی اپنے وقت کی عام مروجہ سنسکرت کی' جو قدیم کتابی سنسکرت سے بہت مختلف ہے' صرف و نحو لکھی ہے۔ چھٹا رتن مشہور منجم دارا مہر تھا۔ پنج تنتر کی حکایتیں بکرم ہی کے عہد میں تصنیف ہوئی تھیں۔ بعد میں ان کا ترجمہ عربی فارسی میں ہوا اور پھر بہت سی مغزی زبانوں میں۔ بکرم اور اس کے عہد کی اور بھی بہت سی حکایتیں ہیں جو آج تک ہند کے گائوں گائوں میں بیان کی جاتی ہیں۔
بکرم کے عہد میں بدھ مت آہستہ آہستہ صفحہ ہند سے مٹتا جاتا تھا۔ کالی داس کی تصنیفوں سے معلوم ہوتا ہے کہ شوالوں اور ٹھاکر دواروں کو بہت مانا جاتا تھا۔ اور ان میں ہندوئوں کے دیوتائوں کی پوجا ہوتی تھی۔ راجہ شوجی کو پوجتا تھا مگر بدھ مت والوں کے ساتھ بھی مہربانی سے پیش آتا تھا۔ اس کے دربار کے نورتنوں میں سے ایک بدھ تھا۔

ہور چوپو!!ـ

اس لطيفے كو پنجابى ميں هى پڑهنے ميں مزا ہے ـ اس لئے پنجابى ميں ہى نقل كر رہا هوں ـ يه صرف ايک لطيفه هى نهيں ـ پاكـ فوج كے پاكستان كے ساتهـ سلوكـ کی بپتا بھی ہے ،،،،


اک سردار جی دے پریوار وچ چار پنج بھرا سن۔
 اک دن بہہ کے صلاح مشورا کرن لگے۔
پئی ایتکی کیہڑی کیہڑی پیلی وچ کیہ کیہ ویجنا چاہی دا اے۔
 وڈے صلاح دتی پئی مڈھلا کلا جھونے ۰مونجی) لئی۔
 اگلا کپاہ(کپاس) لئی تے اُہنوں اگلے چاچے کیاں دے نال والے کلے چ کماد دے بروٹے سٹنے چاہی دے نیں۔
اک نے اگارا بھردے ہوئے آکھیا۔
پئی چاچے کیاں نے تاں کماد نوں اجاڑ پاء دینی ایں۔ اک ہور بولیا اِہدا علاج تاں اج ای بلکہ ہنے ای کر لیندے آں۔
چلو اٹھو آئو میرے نال۔ سارے بھرا ڈانگاں پھڑی چاچے کیاں ول ٹر گئے۔
اگے اُہ اپنے اپنے کمیں کاریں رجھے ہوئے سن۔
اِہناں جاندیاں ای آدیکھیا نہ تائ۔ ڈانگاں اگریاں تے داڑ داڑ ورھویناں شروع کر دتیاں۔
کسے نوں کھرلی وچ سٹیا۔
کوئی ویڑھے وچ ڈگا پیا۔
تے کوئی اگے لگ کے بھج وگیا۔
پر بہتیاں دے کھنے کھل گئے۔
چاچے نے بڑا پچکار کے ترلیاں نال پچھیا!!'
پئی تہانوں کیہ وگیاں؟؟
اگوں جواب ملیا۔
ہور چوپو۔
تہانوں چپا لیندے آں گنّے!!۔
لوکاں وچاریاں نال تاں ہور چوپو والا ای ہتھ ہو رہیا اے۔
کہ
کماد اجے بیجیا وی نئیں تے چاچے نال ڈانگو ڈانگی۔
 

جمعرات، 26 مئی، 2005

كروسيڈ Crusade

(Crusade)
جاتي ەوئى نسل كے لوگ جنهوں نے اسلامى تاريخ ناولوں وغيره كى صورت ميں پڑهى ەے وه صليبى جنگوں كے نام سے اچهى طرح واقف ەيں اب كى نوجوان نسل كەاں تكـ جانتى ەے ميں اس كے متعلق تبصره كرنے كا اهل نەيں ەوں ـ بڑا عرصه هوا هے پاكستان ميں وقت گزارے هوے ـ پچهلے ستمبر ميں دو ەفتے كے لئيے گيا تها اور جوان لوگوں سے گفتگو كا موقع نهيں ملا ـ بات شروع هوى تهى صدر بش صاحب كے دهشت گردى كے خلاف جنگ كو كروسيڈ كەنے سے ـ اور كروسيڈ كا لغوى معنى صليبى جنگ ەى بنتا ەے ـ يا دوسرے لفظوں ميں كيتهولكـ لوگوں كا جەاد كەـ ليں ـ يه جنگيں ناولوں كى حد تكـ تقريبا ساڑهے باره سو سال پەلے ختم ەو گئى تهيں ـ مگر اصل ميں يه كسى نه كسى صورت ميں جارى رٍەيں ليكن مغرب والوں نے اسے كروسيڈ كەنا چهوڑ ديا تها كه صديوں كے تجربے نے مغرب كو بتايا كه اس طرح مسلمان باەمى اختلاف كو بهول كر جنگ كے لئے سنجيده هو جاتے هيں ـ بش صاحب نے بهى طاقت كے نشے ميں چور كروسيڈ كەـ تو ديا ليكن اس بات كے غير معقول ەونے كا احساس هوتے ەى وضاحتيں وغيره كرنے لگے ـ ائيں ان كروسيڈ جنگوں كو تاريخى طور پر ديكهتے ەيں ـ

صليبى جنگيں مختصر تاريخ

ياصليبى جنگوں سے مرادجنگوں كادو صديوں پر محيط وه سلسله ەے جو بنيادى طور پر ويٹيكن يعنى كليسا كے احكامات كے مطابق مسلمانوں لے خلاف مصر اور فلسطين ميں لڑا گيا ـ ان جنگوں كے سلسلے ميں مغربى لوگوں كا مقصد بيت المقدس كا حصول تها ـ بيت المقدس جو كه تينوں مذاەب اسلام يەوديت اور عيسائيٌوں كے لئے يكساں مقدس ەے ـ 1092 سے لے كر1292 تكـ مسلسل دو سو سال پر محيط ان صليبى جنگوں كو اٹهـ محاربوں ميں تقسيم كيا جاتا ەے ـ پەلى صليبى جنگ 1092سے 1099 كا روح رواں ايكـ فلسطينى راەب پطرس تهاـ جس نے مسلمان سلاطين كے مظالم كى جهوٹى داستانيں سنا كر يورپ سے ١٠ لاكهـ صليبيوں كا لشكر جرار اكٹها كر ليا اور اس وقت كے پوپ اعبن ثانى كے احكامات كے مطابق مسلمانوں اور يەوديوں پر بے انتەا مظالم ڈهاتے ەوئے بيت المقدس يعنى يروشلم پر قبضه كر ليا اور ٨٨ سال تكـ يەاں قابض رٍەاـ
دوسرى صليبي جنگ 1174 سے 1187 تكـ جارى رەىعماد الدين كے بيٹے نور الدين زنگى نے 1169 ميں صليبيوں كے خلاف اعلان جەاد كيا جسے صلاح الدين ايوبى نے اگے بڑهاتے ەوے ١١87ميں بيت المقدس كو صليبيوں كے قبضے سے واگزار كروا ليا ـ قس كے بعد صلاح الدين نے مذيد كچهـ قلعے فتح كئےجن ميں حض الاكرادو وغيره شامل ەيں ـ
تيسرى صليبى جنگ ١١٨٩ سے١١٩٢ تك لڑى گئى ـ١١٨٩ كے اوائل ميں جب شاه فرانس فريڈريكـ بربروصەـ كى زير قيادت صليبيوں كے لشكر كے جمع ەونے كى اطلاع ملى تو صلاح الدين ايوبى نے خليفه وقت كے دستخطوں سے صليبيوں كو وه حضرت عيسى كى وه صليب جس كو كراس اف كروسىفيكشن كەتے تهے اور ديگر تبركاتواپس كرنے اور بيت المقدس كو تمام مذاەب كے لئے كهلا شەر بنانے كىپيش كش كى ـ مگر شاه فرانس نے يه پيشكش مسترد كر دى ـ يوں تيسرى صليبى جنگ كا اغاز ەوا جو فلسطينى قلعه نما شەر عكّه ميں لڑى گئىصليبيوں نے عكّه كا محاصره كيا اور شاه رچرڈ شاه انگلستان كى بحرى مدد سے عكه كا قلعه فتح هوا ـ صلاح الديں نے ەتهيار ڈالنے كى شرائط ميں زر فديەـ كے ذريعے تمام مسلمان اەل قلعه كى رەائى اور صليب الصلبوت كى واپسى كى پيشكش كى ـ
صليب الصلبوت كى واپسى ميں پس پيش پرشاه رجرڈ نے قلعے كے سب مسلمانوں كو قتل كر ڈالاـ
١١٩٢ ميں مسلمانوں نے عكه كے علاوه ديگر صليبى قلعے جافا،رمله اور عسقلدن فتح كئے ـ اور صليبيوں كو پسپا ەونے پر مجبور كر ديا ـ يه وەى جنگ ەے جس ميں سلطان ايوبى نے شاه رچرڈ كے گهوڑے كےمرنے پر اپنا گهوڑا بهجوايا تها ـ رچرڈ جسے مغربى شير دل رچرڈ كەتے ەيں كواپنى بادشاەت كے داخلى معاملات كى خاطر صلح كى شرائط پيش كرنا پڑيں ـ
چوتهى صليبى جنگ ١٢٠٠ء سے 1204ء تكـ عيسائوں نے عيسائوں كے خلاف لڑى ـ قسطنطنيه ميں بازنطينى بادشاه اسحاق فرشته صفت كى حكومت تهى جس كى سلطنت كى كمزورى نے ديگر يورپي طاقتوں كو جارحيت كى دعوت دى ـ يورپ ميں حالات تبديل ەو رەے تهے ـ كليسا اور بادشاەت ميں اقتدار كى كشمكش جارى تهى ـجو اس صليبى جنگ كا موجب بنى وينس كے لوگوں نے اس بەانے سے كه وه يورپ كے متحده صليبى لشكر كو جو مسلمانوں كے خلاف مسيحى جەاد كى غرض سے شام ميں لڑنے كے لئے اكٹها كيا گيا تها،كو مدد دينے اور قسطنطنيه كے غاضب بادشاه اليكسس كو ەٹانے كى غرض سے قسطنطنيه پر دهاوا بول ديا اور بزنطينى دولت كو لوٹ كر خوب دولت اكٹهى كى
پانچويں صليبي جنگ١٢١٥ء سے ١٢٢١ء لڑى گئى ـ سلطان صلاح الدين ايوبى كى وفات (٣ماچ ١١٩٣ء ) كے بعد ايوبى سلطنت انتشار كا شكار تهى جس سے صليبيوں نے فا'ئدە اٹهانے كا سوچا ـ اس سلطنت كو سلطان ايوبى كے بهائى الملكـ العادل نى مجتمع كيا الملكـ العادل (بعد ازاں اس كے بيٹے ملكـ الكامل)كے دور حكومت ميں يورپ كى متحده قوت نے بارنطينى سلطنت سے لوٹے گئے خزانے كى مدد بهى حاصل تهى،اپنے بحرى بيڑے كے ذريعے مصر كے شمالى ساحلپر دهاوه بول ديا اور يه لوگ اسكندريه اور دمباطفتح كرتے ەوے قاهره كے مضافات ميں منصوره تكـ آ پەنچے صليبيوں نے سلطان كى اس پيشكش كوٹهكرا ديا كه يروشلم لے لو اور مصر سے واپس چلے جاؤـ ليكن جب دريائے نيل كى طغيانى ،كمكـ كى نايابى ،قحط،اور صليبى لشكر ميں پهيلى وباؤں نےلشكر كو تباه كر ڈالاتو حالات مسلمانوں كے حق ميں هو گئے ـ مگر سلطان كى دريا دلى نے صليبيوں كو امان دى ـ اور صليبى لشكر آٹهـ سال كى صلح كى شرط پر واپس لوٹ گيا ـ
چهٹى صليبى جنگ يه جنگ 1247ء سے 1254ء تكـ جارى رهى اس جنگ كو منصوره كى دوسرى جنگ بهى كهتے هيں ـ منصوره كى پهلى جنگ كى طرح اس دفعه بهى صليبى لشكر بحيره روم سے مصر كے شمالى ساحل پر اترے اور دمباط پر قبضه كر ليا ـ سلطان ملكـ الكامل كى وفات كو خفيه ركهتے هوے اس وقت مصر پر سلطان كى ايكـ هوشيار عقلمند كنيز شجرة الدر كى حكومت تهى جس نے مختلف النسل سرداروں ،خاص طور پو مملوكوں كى بدولت صليبيوں كو منصوره كا محاصره كرنے پر برى طرح شكست دى ـ اس جنگ ميں مملوكـ سردار ببيرس(بعدازاں ) سلطان ببيرس كا كردار واضع هو كز سامنے ايا ـ اگرچه صليبيوں نے منصوره كى پةلى جنگ كو مدنظر ركهتے هوے حكمت عمكي ترتيب دى تهىمگر اس وقت كے مسلمانوں كى بهتر حربى صلاحيت، غير موافق موسم اور مقدر كے سامنے نه ٹهر سكے ـ ويں سينٹ لوئس كي زير قيادت صليبيوں كو نه صرف مصر بلكه فلسطين سے بهى هاتهـ دهونے پڑےـ
ساتويں صليبى جنگ1267ء سے 1271 ء تكـ جارى رهىـ اس وقت شام اور مصر كے تخت پر مملوكـ سردار ببيرس متمكن تها ( جوكه پهلے غلام تها) وي وەى ببيرس سلطان هے جس نے منگولوں كو شكست جيسى چيز كا مزه چكهايا تها ـ اس سردار نے اپنے سياسى تدبر اورعسكرى مهارت كى بدولت آپنى حكمرانى كے اغاز سے هى فلسطين ميں واقع صليبى قلعوں كا صفايا كرناشروع كرديا تها ـ اس سے متاثر هو كر سينٹ لوئس ايك اور صليبى جنگ كى منصوبه بندى كى ـ انتياريوں كى اطلاع كى تصديق پر سلطان ببيرس نےاپنى موت كى جهوٹى افواه اڑا دى اور تيونس كے حكمران كے ذريعے مصر پر حملے كى تجويزى دعوت دى جس ميں تيونس كے ساحل كى پيشكش بهى شامل تهى ـ مصر پر حملے كے لئے سينٹ لوئس كا يه لشكع تيونس كے ساحل پر اترا مگر اس ساحل كے انتهائى خراب موسم ناقابل برداشت دهوپ،متعفن اور شورزده زمين ،طاعون كے سبب سينٹ لوئس اور ولىعهد(فرانس)سميتبهت سے صليبى سردار اور فوجى هلاكـ هو گئے اس لئے اس لشكر كو پسپا هونا پڑا ـ سلطان ببيرس نے آپنے تدبر سے بغير كسى لڑائى كے يه جنگ جيت لى ـ بعد ازاں سلطان ببيرس نے فلسطين اور شام ميں واقع عيسائى رياست كو بهت هى محدود كر ديا تها ـ
آٹهويں اور آخرى صليبى جنگ 1270ء اور ١٢٩١ء كے دوران لڑى گئى ـ شاه انگلستان كى زير قيادت اس جنگ ميں منگولوں كے ٨٠هزار كے قريب ايك بڑے لشكر نے بهى حصه ليا تها ـ جنهيں ببيرس كى وفات (1288 )كے بعد اس كے جانشين اور سابقه غلام قلاؤن نے فلسطين كے شهر حمص كے قريبهما كى وادى ميں شكست فاش دى ـ بعد ازا سلطان قلاؤن كى وصيت كے مطابق سلطان قلاون كے جانشين بيٹے الملكـ الجليل نے عكه كى اخرى صليبى قلعه بند رياست كو انتهائى سخت معركے كے بعد ١٢٩٢ ميں فتح كر ليا ـاس طرح صليبى جنگوں كا بظاهر اختتام هوا ـ

اتوار، 22 مئی، 2005

ناتكو قصورى ميتهى

ويكـ اينڈ پر كوشش ەوتى ەے كه اچها كهانا پكا كر كهائيں ـ واجد كەنے لگا كه بهنڈى چكن اچها بنا ليتا ەےـ واجد کراچی والا خاور کاکام باورچ ى خانے كا كام واجد خان پر چهوڑ كر ميں پيرس آواره گردى كے لئے نكل گيا ـ واپسى پر بهنڈى چكن تيار تها ەنڈيا پر محنت كى گئى تهى اور مسالوں كا توازن بهى ٹهيكـ تها ـ مگر كهانا كهاتے ەوئے كهانے ميں باريكـ ريت تهى جو دانتوں كے نيچے آ كر مزا كركرا كر رەى تهى ـ واجد سے بهنڈى كو دهونے كے متعلق پوچها تو اچهى طرح دهويا تها كا جواب ملا ـ ميں نے سوچا كه جوان لڑكے آپنى كامچورى كا الزام اور چيزوں كو دے ەى ديا كرتے ەيں كوئى بات نەيں كل ميں اس كو كوئى سالن بنا كر ديكهاؤں گا ـ اس لئے اج ميں نے سالن بنايا اور اخر پر جب خشكـ ميتهى كى بارى آئى تو اس ميں سے ميتهى كے ساتـهـ ساتهـ اچهى خاصى ريت كى مقدار ەنڈيا ميں گرى ـ ڈيڑه گهنٹے كى محنت اور كهانے كے ضائع ەونے كا دكهـ ـ پاكستان ەمارے گهر پر كهانے كے ضيائع كے بەت برا سمجا جاتا ەے اس بنى بنائى ەنڈيا كے ضائع جانے كا افسوس ەوا ـ تهوڑے سے منافع كے لئےكهانے كى چيزوں ميں نه كهائى جا سكنے والى چيزوں كى ملاوٹ كرنے والے لوگ كس سوچ كے مالك ەيں؟
ناتكو نام كى يه قصورى ميتهى ميں خريدى تهى بهٹى كى دوكان سے بهٹى كى دوكان سے يه ميرى پەلى خريدارى تهى ـ بهٹى كى دوكان يەاں فرانس ميں كافى مشەور دوكان ەےـ سينٹ ڈينى كے اردگرد رەنے والے پاكستانى سب ەى اس دوكان كو جانتے ەيں ـ بەت سے پاكستانى ملاقات كا ٹائم بهٹى كي دوكان كا ديا كرتے ەيں ـ
ناتكو نام كى اس قصورى ميتهى پر اس ميتهى كے پاكستان كى پيداوار ەونے كا لكها ەے خاور کی بنايی تصوير ناتکو قصوری ميتهی ـ اور انگلينڈ كى كمپنى يورپ ميں بيچتى ەے ـ

ہفتہ، 21 مئی، 2005

وضاحت

ذاتى طور ميں خود تصوف كے پورے سلسلے كو ەى غير قرانى سمجهتا ەوںقارى اس كو كس رنگ ليتے هيں قارى كي صوابديد چهوڑتا هوں!
,ميرے خيالات كيا ەيں اور فلسفه كيا هے؟ ميں يه بحث شروع هى نەيں كرنا چاهتا !!
عقل سليم كے ليے هر بات ميں الله نے نشانياں ركهى ەيں !!الله جو سب جانتا سب سنتا هے خالق مالكـ ەے!!الله كى كتابوں كو ترجمے سے پڑەنے والے كسى بهى فلسفے كى حقيقت كو پا ليتے ەيں
بلهے شاه صاحب وحدت الوجود كے قائل تهے يعنى نيكى بدى اور خدا سب ايك هيں فائل فعل اور مفعول سب خدا كا روپ ەيں،!!
آپ شاعرى پڑهيں آنجوے كريں هو سكتا ەے آپ كو اس ميں دل كا سكون مل جاے

آپے رانجها ەويى

رانجها رانجها !، كردى ەن ميں آپے رانجها ەوئى
سدّو مينوں ،،دهيدورانجها،،ەير نه آكهو كوئى


رانجها ميں وچ ،ميں رانجهے وچ ،غير خيال نه كوئى
ميں نەيں ، اوه آپ ەے،آپنى آپ كرے دل جوئى


جو كج ساڈے اندر وسے ذات اساڈى سوئى
جس دے نال ميں نيونهـ لگايا اوه جيسى ەوئى


چٹّى چادر لاه سٹ كڑيےپەن فقيراں لوئ،
چٹى چادر داغ لگيسى ، لوئى داغ نه كوئى


تخت ەزارے لے چل بلهيا ، سياليں ملے نه ڈهوئى
رانجهارانجها،، كردى ەـن ميں آپےرانجها ەوئى

چڑياں دى تقدير

آئى رت شگوفياں والى ،چڑياں چگن آئياں
اكناں نوں جرياں پهڑ كهادا،اكناں پهائياں لائياں


اكناں آس مڑن دى آەے،اكـ سيخ كباب چڑهائياں
بلّهے شاه كى وس انهاںدا،جو مار تقدير پهسائياں

جمعہ، 20 مئی، 2005

ايكـ لڑكا

ايكـ چهوٹا سا لڑكا تها ميں جن دنوں
ايك ميلے ميں پەنچا ەمكتا ەوا


جى مچلتا تها اكـ اكـ شے پر مگر
جيب خالى تهى كچهـ مول لے نه سكا


لوٹ ايا لئے حسرتيں سينكڑوں
ايك چهوٹا سا لڑكا تها ميں جن دنوں



خير محروميوں كے وه دن تو گئے
آج ميله لگا ەے اسى شان سے


آج چاەوں تو اكـ اكـ دوكان مول لوں
آج چاهوں تو سارا جەان مول لوں


نارسائى كا اب جى ميں ڈهڑكا كەاں؟
پر وه چهوٹا سا ، الهڑ سا لڑكا كەاں؟

درد كى دولت

جو حادثے يه جەان ميرے نام كرتا ەے
بڑے خلوص سے دل نذر جام كرتا ەے


ەميں سے قوس و قزح كو ملى ەے رنگينى
ەمارے در په زمانه قيام كرتاەے


ەمارے چاكـ گريباں سے كهيلنے والو
ەميں بەار كا سورج سلام كرتاەے


يه ميكده ەےيەاں كى ەر اكـ شے كا حضور
غم حيات بەت احترام كرتا ەے


فقيه شەر نے تەمت لگائى ساغر پر
يه شخص درد كى دولت كو عام كرتا ەے

پیر، 16 مئی، 2005

خليل جبران اور پنجابى شاعر

خليل جبران ايكـ عيسائى لبنانى مفكّر اور اديب هوا هےـ خليل جبران صاحب كى تحريروں سے تهوڑا نقل كر رها هوں ـ
❊ افسوس اس قوم پرجو عقيدے سے مالامال هو اور مذهب كى روح سے بيگانه هو❊
افسوس اس قوم پرجس كے خواب فاتحانه هوں جو جاگنے پر هتهيار ڈال دے❊
افوس اس قوم پر جو كپڑا بهنے وه جو اس نے خود نه بناهوگندم كهائے جو اس نے خود نه بنئى هو مشروب پئےجو اسے خود نه بنانا اتاهو❊
افسوس اس قوم پر جو ٹكروں ميں بٹ جائےاور جس كا هر ٹكرااپنے اپ كوعليحده قوم سمجتا هو❊
يارو هم برصغير كے رهنے والے ايسے تو نه تهے يه هميں كيا هو گيا هےـ

اب مجے نام ياد نهيں آرها ان صاحب كا ـ پنجابي ميں كچهـ اس طرح كهتے ميں ـ
چرخه ٹٹاگهوكر مكّىتند ترٹى پونى گهس كئى
بيلے اجڑےچوى ڈهل گئى ونجلى اپنےسر توں رس كئى
ايس پرانى رهتل والياںگلاں اى بس ره گئياں نيں
سچے پيا تے سانج اسارى والياں كندهاں ڈهے گئياں نيں

اتوار، 15 مئی، 2005

ذهنوں كى موڈيفكيشن

همارى دنيا ميں هميں ميڈيا كے ذريعے گمراه كيا جارهاهے مگر انٹرنيٹ كے آنے كے بعد اميدبندهى تهى كـه معلومات كو ڈهير كهنگالنے كے بعد جستجوكے عادىآدمى اصلى بات تكـ پهنچ جاياكريں گےبى بى سى كى خبر هے كـه ـ


انٹرنیٹ سرچ انجن گوگل اپنی ویب سائٹ پر خبروں کے معیار کو بہتر کرنے کی کوشش کررہا ہے۔
گوگل نے امریکہ میں ایک ایسے پیٹنٹ کی درخواست دائر کی ہے جس کے بعد گوگل سرچ انجن پرخبروں کی تلاش ان کے معیار پر منحصر ہوگی نہ کہ ان کی افادیت پر۔
مثال کے طور پر اسِ وقت گوگل پر اگر پر کوئی خبر تلاش کی جائے تو اُس موضوع سے متعلق انٹرنیٹ پر موجود ہزاروں نتائج معیار کی تفریق کے بغیر ہی سامنے آجاتے ہیں۔ ضروری نہیں کہ بی بی سی یا سی این این جیسے متعبر اداروں کی خبریں تلاش کے نتیجے میں پہلے صفحات پر آئیں بلکہ ان کی بجائے کئی دوسرے چھوٹے اداروں کی خبریں جو تلاش کے لئے ٹائپ کئے گئے الفاظ سے زیادہ افادیت رکھتی ہیں پہلے صفحات پر آجائیں۔
لیکن نئے نظام کے بعد خبروں کے ذرائع اور اداروں کی ساکھ کو مد نظر رکھتے ہوئے کسی بھی تلاش کے نتیجے میں وہ خبریں پہلے سامنے آئیں گی جو روایتی طور پر معتبر اداروں کی ہونگی۔


يعنى كـه سرچ انجن كو هى موڈى فائى كر ديا جائے گا تا كـه بلڈى سويلين يا چهوٹا لوگ تلاش كے باوجود بهى وهى پائيں جو مفاد پرست لوگوں كے مفاد ميں هو ـ چيچوكى ملياں يا ٹوبه ٹيكـ سنگهـ ميں هونے والے حادثے كو اگر كوئى اصلى گواه آپنے لفظوں ميں اصلى بات انٹرنيٹ پر چڑها بهى ديتا هے تو تلاش كرنے والے كوسرچ انجن ميں متعلقه لفظ ڈالنے كے باوجودبهى يه خبر نه ملنے كے امكان هيں كيونكه يه خبركسى ملٹى نيشنل كمپنىيابڑے ڈاكوملكـ كى خبر رساںايجنسى نےشائع نهيں كىـ ـ بهٹى بهنگو باورے يا چكـ خليل ميں كسى غريب كى بهينس چورى كى خبر كو اگر نوئيں كے يا دهرمكوٹ كاكوئىلڑكا انٹرنيٹ پر شائع كر بهى دےتو نقارخانے ميں طوطى والى بات هو جائے گىـ ـ اپنے علاقے كى بهينس چورى كى خبر ياقتل كا واقعه كسى بهى ادمى كے لئےفلسطين كے مسئلے يا مشرف صاحب كى وردى كى كەـ مكرنى سے ذياده اهم هوتا هے ـ
اگر كسى كوچوان كا گهوڑا مرجائےتو اس كے لئےيه ورلڈ ٹريڈ سنٹر كى تباهى سے بڑاحادثه هوتا هےـ اور اگر كسى غريب كا لڑكاجوئے كے كيس يا اواره گردى ميں دهر ليا جائے اس غريب كا حال كوئى غريب هى محسوس كر سكتا هےـ اور ان كے قريبى لوگوں كے لئے يه خبر كسى فوجى ڈكٹيٹر كي موت كى خبر سے اهم خبر هوتى هے ـ خبروں كو گوگل والے كس كسوٹى پر پركها كريں گے خاور تو كوئى اندازه لگا نهيں سكتا يا يه كەـ ليں كه خاور كىنظر ميں ايسى كوئى كسوٹى هے هى نهيں ـ

اتوار، 8 مئی، 2005

همارے هيروز

بات هے عيسى عليه سلام كے پيدا هونے سے تين سو اور كچهـ سال پهلے كى ـ راجه پورس اور سكندر كى فوجيں امنے سامنےلگى تهيں سكندر جس نے هاتهى پهلى دفعه ديكهے تهے ايك دفعه تو خوف زده هوا مگر اونٹوں پر كالے جهولےڈال كرهاتهيوں كو خوفزده اور الٹابهاگنے پر مجبور كر ديا ـ اور پنجاب كى تاريخ كے پهلے جنگى هيرو غيرت مند اور بهادر راجه پورس كى فوج اپنے هاتهيوں كى وجه سے لڑائى هار گئىمگر راجه پورس تاريخ ميں پهلے پنجابى كهلوائےجنهوں نے غير ملكى حمله آوروں كو روكا يا روكنے كى كوشش كى ـ ورنه درّه خيبر كو پار كركے انے والےكسى بهى حمله آور كوكبهى پنجاب نے نهيں روكاآخرى حمله آور مغل تهے ـ راجه پورس كے دور ميں راجه امبهىسار نے روشن خيالى (غيرت مند لوگوں كى نظر ميں بزدلى) كى ايسى بنياد ركهى كه اس خطے كے اكثر لوگ اج بهى اس روشن خيالى كى روايت كے ركهے هيں ـ راجه امبى سار نے سكندر سے تعاون كيا تها اور سكندر كوهر قسم كى جنگى سهولتيں فراهم كى تهيں ـ سكندر آعظم كے بعد جتنے بهى حمله اور خيبر كے راستے ائے پنجاب ميں ان كے كبهى بهى كوئى قابل ذكر مزاحمت نهيں هوئىـ احمد شاه ابدالى كے متعلق ايك محاوره بولا جاتا تها كه
كهادا پيتا لاه دا
تے
واداه احمد شاه داه
يعنى اپني فصليں ميں سے جو آپ نے كها ليا وه تو هوا آپ كا باقي سب احمدشاه لوٹ كر لے جائے گا ـ
راجه پورس كے بعد غير ملكى حمله آوروں كے خلاف تو نهيں مگر غير ملكى قابض حكمران اكبر مغل كے خلاف پنجاب سے دلاّ بهٹى اور جيمل پهتا كي مظاهمت كا ذكر ملتا هے ـ ان تينوں نے آگرچه لڑا'ئى ميں مار كهائى مگر ظلم كے خلاف ڈٹے تو تهےدلاّ بهٹى لڑا تها اكبر مغل بادشاه سے كه اكبر نے دين الهى نام كے ايك مذهب كى بنياد ركهى تهىاور خود خدا بن بيٹها تها خدا بننےكےلئےاكبرنےريفرينڈم وغيره كروايا تها كه نهيں اس كاكهيں ذكر نهيں ملتا ـ اس كے بعد اتے هيں گوجرانواله كى دهرتى كے سپوت راجه رنجيت سنگهـ جس نے جمرود تك حكومت كىـ پرانےزمانے سےافغانستانميں رواج چلا ارها هے كه جو ادمى پڑه لكهـ جاتا تها وه پير اور روحانى پيشوا بن كر پنجاب ميں رزق كى تلاش ميں آجاتا تها اور جو كوئى طاقت يعنى اسلحه والے آدمى اكٹهے كر ليتا تها پنجاب كو لوٹنے كے لئے آجاتا تها اور جو يه دو كام نهيں كر سكتا تها وه بهيك مانگنے كے لئے آجاتا تها ـ اس لئے پنجابى ذهنى طور پر پٹهانوں سےخوفذده هيں آج بهى پنجاب كے قصبوں اور شهروں ميں پٹهان چوكيدار ركهنے كا رواج هے ـ اس سے پنجابى لوگوں كو تحفظ كا احساس هوتا هے ـ ان پٹهانوں پر اگر كسى پنجابى نے حكومت كى هے تو وه هے راجه رنجيت سنگهـ ـ مگر پاكستان كى تعليم نے هميں سكهايا هے كه رنجيت سنگهـ ايك سكهـ تها اور وه سكهوں كا هيرو هے ـ راجه پورس حضرت نبى پاك صعلم كے ظهور سے تقريبآايك هزار سال پهلے هوا هےمگر پاكستانى تعليم نے اسے ايك هندو هى كے طور پر متعارف كروا كر هندو لوگوں كا هيرو بنا كر ركهـ دياهےباقى ره جاتے هيں دلا بهٹى اور جيمل پهتا يه ويسے هى ديسى ديسى سے لگتے هيں اس لئے هيرو كے ليول پر پورے نهيں اترتے اور تعليم ميں انكا كوئى ذكر هى نهيں ملتا ـ اب ذكر كرتے هيں خالص پاكستانى هيرو جناب ڈاكٹر عبدلقدير صاحب كا ـ مگر ميرے خيال ميں رهنے ديں ان كو وقت كے فرعوں كے حكم پر پاكستان پر غير قانونى اور غير آئينى طور پر قابض مشرف صاحب نے انگريزى ميں معافى مانگنے پر مجبور كر دياتها ـ
عربى لوگوں كے اسلام سے پهلے والے آج بهى هيرو هيں تركى اور ايرانى لوگوں كےاسلام سے پهلے والے هيرو اج بهى هيرو هيں ـ پاكستانى قوم ـ اگر يه كوئى قوم هے ؟؟ تو ان كے هيرو كون هيں؟؟كچهـ افغان كچهـ عربى كچهـ ترك اور ايرانىاور كچهـ افريقى(بربر)ـ يعنى هر چيز امپورٹيڈ حتى كه وزير آعظم بهى امپورٹ كر ليا كرتے هيں ـ

اتوار، 1 مئی، 2005

آفتخار اجمل صاحب

افتخار اجمل صاحب اسلام آباد باكستان سے لكهتے هيں ـ
جاپانی خاتون کے خیالات پڑھ کر مجھے حیرت اس لئے نہیں ہوئی کہ اگر یورپ یا افریقہ میں پوچھا جا سکتا ہے کہ پاکستان میں ٹماٹر یا لڈو کھیل ہوتا ہے یا جرمنی میں کہا جائے کہ پاکستان پر انگریزوں نے آٹھ سو سال حکومت کی اس لئے پاکستان تہذیب کا گہوارہ بن گیا تو باقی سب کچھ ٹھیک ہےــ

هاں يه بهى ايك نقطه نظر هے ـ ايسا هوتا هے كه ترقى يافته ممالك كے وه لوگ جنهوں نے كبهى سفر نهيں كيا هوتا وه ايسا سوچ سكتے هيں ـ مگر جاپانيوں كى گمراهى لكهتے هوئے ميں ايك اور نقطه نظر سے ديكهـ رها تها كه وهاں جاپان ميں ميڈيا كيوں لوگوں كو گمراه كر رها هے ـ حكومت كے قصور كو كم كركے كيوںديكها رها هے اوراپوزيشن كے احتجاج كو ايك فضول ضد اور بيجا هٹ دهرمى كے طور پر كيوں ديكها رها هے؟؟مخلوط معاشروں ميں بغير بازو والى قميضيں ايك معمولى بات هے حتى كه پاكستان ميں بهى خواتين يه لباس استعمال كرتى هيں اور كسى كو اعتراض نهيں هے ـ اس لئے صرف بغير بازوں والى قميض پهنے ميراتهن كى كهلاڑى عورتوں پر مذهبى حلقوں اور ان كے ساتهـ شامل عوام كو اعتراض كيوں هوا؟ اصلى بات كيا هے ؟ يهاں فرانس ميں رهتے هوے مجهے بهى اصلى بات كا پورا علم نهيں هو سكتا مگر اندازه تو كيا جا سكتا هے كه بات اتنى سى نهيں هو گى كه صرف ننگے بازو پر اتنا احتجاج هوا هو گا ـ ترقى يافته ممالك ميں ميراتهن كا روايتى لباس ايك بنيان نما شرٹ اور انتهائى چهوٹے جانگيئے جس ميں صرف خاتون كا زير جامه هى چهپ سكے پرمشتعمل هوتا هے ـ اگراس لباس ميں پاكستان ميں دوڑ هو گى تو هنگامه تو هو گا ـ يا پهر عورتوں اور مردوں كى مخلوط دوڑ هو گى جس پر هنگامه هوا هو گا ـ عورت كے ستر كى حفاظت اسلام ميں تو هے هى اس كے علاوه بهى برصغير كے سب قبائل اور قوموں ميں عورتوں كے سر ڈهانپنے يا ڈوپٹے كا چلن هےـ بس اج كل مولويوں كےخلاف پروپيگنڈاكيا جا رها اسلئے بات جو بهى هو گى قصور تو مولوى كاهوگا ـ جس طرح پرانے زمانے ميں مشرقى پاكستان والے غدّار ثابت كيئے گئے اور جس طرح بنگله ديش كاالزام سياستدانوں كو ديا گيا جس طرح جاويد هاشمى غدار هوا جس طرح ڈاكٹر قدير صاحب كى معافى اور جس طرح وزير اعظم قتل هوئے اور كچهـ جلا وطن هوئے ـ

منگل، 26 اپریل، 2005

جاپانيوں كى گمراهى

ميرا تهن دوڑ گوجرانواله كى ميراتهن ـ آج اتنے دنوں بعد مجهے اس پر هنگام دوڑ پر لكهنے كيا خيال ايا ـ اس وقت كيوں نه لكها جب لكهنے كا وقت تها ـ يعنى جب سب لكهـ رهے تهے ـ اصل ميں بات يه هوئى هے كه اج مجهے پته چلا هے كه اس واقعه كو جاپان ميں كيسے ديكهايا جا رها هے ـ اور عام جاپانى اسے كيسے ديكهـ رهے هيں ـ جاپان ـ پاكستان كوسب ملكوں سےذياده نقد قرض دينے والا ملك هے ـ اس لئيے يهاں كے عوام كى همدردياں قرض لينے والے ملكوں كى حكومتوں كے لئے بهت اهم چيز هوتى هيں ـ ..قرض لينے والے ملكوں كى حكومتوں كے لئے اهم چيز هوتى هيں ،،عوام كے خيالات هو سكتا هے دوسرے هوں ـ
اشيكاوا مييوكى(اي شى كا وا مى يو كى) نے اج بتايا كه گوجرانواله ميں ميراتهن هونى تهى جهاں كچهـ خواتين كے لباس ادهے بازو يا پهر بغير بازو والى قميضيں تهي ـ مذهب كے ٹهيكداروں كو اس پر اعتراض هوا ـ اس لئے ميراتهن كى انتظاميه نے حكومت سے اس بات كا پروانه حاصل كر ليا كه بغير بازو اور آدهے بازو والى قميض پهن كر خواتين دوڑ ميں شامل هو سكتى هيں ـ ليكن مذهب كے ٹهيكےدار ضدّى مولوى پهر بهى باز نهيں ائے اور دوڑ كو روكنے كے لئے آموجود هوئے ـ اور جب ان كو حكومتى پروانه ديكهايا گياتو اس كو ماننے كى بجائےكهنے لگے كه همارے پاس خدا كا پروانه ايا هے كه اس دوڑ كو روكيں ـ اور ان مولويوں نے حكومتى احكام كى كهلى خلاف ورزى كرتے هوے ـ گوجرانواله ميں هنگامه آرائى اور توڑپهوڑ كركے حكومت كے مثبت كاموں ميں روكاوٹ ڈالى ـ يه خيالات هيں ايك جاپانى خاتون كے ـ اور اس خاتون نے اخذ كئے هيں يه خيالات ديكهـ سن كر خبريں اور تبصراتى پروگرام ـ يه خاتون مييوكى صاحبه جاپان كى مشهور يونيورسٹى مساشى كوگيو يونيورسٹى كى پڑهى هيں يعنى تعليمى اعتبارسے انجينير هيں ـ جاپانى زبان كے علاوه انگلش اور فرانسيسى روانى سے بول ليتى هيں اس كے علاوه اردو زبان خاصى حد تك بول ليتى هيں اور اردو زبان كو لكهنے پڑهنے كي بهى سوج ركهتى هيں ـ دنيا كے كتنے هى ملكوں كا سفر كيا هوا هے ـ جاپان ميں جائداد كى خريدوفروخت كے كروڑوں كے بزنس كو چلا رهى هيں ـ اگر اس طرح كے پڑهے لكهے لوگ اگر ميڈيا كے هاتهوں اس برى طرح گمراه هو سكتے هيں تو عام لوگوں كے خيالات كياهوں كےـ

اتوار، 17 اپریل، 2005

ميرے ارد گرد ٢

الله يار
الله يار كا تعلق منڈى بهاؤالدين سے هے ـ اللّه يار بهائى تارڑ بلوچ هيں پاكستان ميں ذمينداره اور دوكان دارى كرتے تهے ـ اس وقت فرانس ميں رهائش پذير هيں ـ فرانس ميں الله يار بهائى رنگ كا كام كرتے هيں ـ پٹوار كے سسٹم كے متعلق يه كسى بهى پٹوارى جتنا جانتے هيں ـ زمينوں كے معاملات ميں هم دوست ان سے هى مشوره كرتے هيں ـ عام طور پر كم گو الله يار پرهے پنچائت كے معاملات ميں شرارتى ادمى كى انتشار پهلانے والى بات كوپكڑے اور اس كا جواب دينے ميں ماهر هيں ـ
اللّه يار تارڑاللّه يار تارڑ
احمد فراز بوبى
آپنے حلقے ميں بوبى بوبى هى كے نام سے پهچانا جاتا هےـ اس كے بهت كم دوستوں كو اس كے اصلى نام احمدفراز كا پته هے ينگ مين اور ويلڈريس بوبى آپ كو شام كے وقت ويمبلے والوں كى گلى ميں لاهور ريسٹورينٹ كے پاس سلطان يا طارق كے ساتهـ پهرتا هوا ملے گا ـ جين پر ليدر كى جيكٹ اور بالوں كو جل لگائے ـ بوبى يهاں فرانس ميں بجلى كا كام كرتا هے
احمد فراز بوبی
اختراختر كا تعلق گجرات كے ايك قصبے ڈنگه (اصل لفظ هے دين گاه) سے هے ان دنوں يهاں فرانس ميں اپنے بڑے بهائى افضل كے ساتهـ رهائش پذير هے پاكستان ميں لكڑى كے كام كا كاريگر تها مگر فرانس ميں بجلى كا كام كر رها هے ـ
اختر ترکهان

ميرے ارد گرد

چوهدرى ظفراللّه
چوهدرى ظفرالله كا تعلق سرگوده كى تحصيل بهلوال كے ايك گاؤں ميلووال سے هے ـ جاٹوں كى گوت كهوٹ سے هيں پاكستان ميں ذمينداره كرتے تهے ـ يهاں فرانس ميں رنگ كا كام كرتے هيں ـ اپنے كام ميں ماهر چوهدرى صاحب يهاں فرانس ميں ظفر مندرى والا كے نام سے پهچانے جاتے هيں ـ سالهاسال سے فرانس ميں ره رهے هيں انكے بعد انے والے ان كے تعاون سے فرانس ميں ٹهيكدار بن كر كروڑوں پتى هو گئے ليكن چوهدرى صاحب آج بهى مزدورى كر رهے هيں ـ
چوهدرى ظفر اللّه كہوٹ
چوہدری ظفر اللہ کہوٹ ،آف میلووال بھلوال

حاجى اورنگزيب
جناب حاجى صاحب كا تعلق گجرات كى تحصيل پهاليه سے هےسالهاسال سے فرانس ميں مقيم هيں ـ اگر آپ پيرس ميں رهتے هيں يا آپ كو كبهى پيرس انے كا اتفاق هو تو بيرس كے مشرقى اسٹيشن(گادر دى ليست)كى عمارت كے سامنے عمارت كى طرف پشت كركے كهڑے هوں توسامنے تقريباً تيس ميٹر آكے بائين هاتهـ ايك گلى مڑتى هے اس ميں دائيں هاتهـ پر ان كى حجام كى دوكان هےـ معاملات كى سمج بوجهـ ركهنے والے بيدار مغز حاجى صاحب كافى وسيع حلقه احباب ركهتے هيں ـ
دوكان كے مالك استاد غلام سرور صاحب ان دنوں پاكستان گئے هوئے هيں ـ ان كي واپسى پر ان كا تعارف اور تصوير بهى پوسٹ كرنے كا اراده هے ـ
حاجی اورنگزیب

قيصر
هم سالهاسال سے ايك دوسرے كے جانتے هيں ـمگر نه كبهى قيصر نے اپنا پورا نام بتايا اور يه هى ميں نے كبهى پوچها ـ قيصر كا تعلق هے راولپنڈى سے مگر راولپنڈى ميں كهاں يه مجهے پته نهيں ـ ناينٹى نائيں ميں هم نو ساتهـ ايك جگه بجلى كا كام كيا تها ـ بعد ميں همارى پيشه وارانه راهيں جدا هو گئى مگر ملنا جلنا رهاـ قيصر اب ايك ٹهيكدار هے اور ميں ايك مزدور ـ
كسى عقل مند كا قول هے كه
پچانوے پرسنٹ لوگ شخصيات پر باتيں كرتے هيں اور تين پرسنٹ واقعات پر اور صرف دو پرسنٹ لوگ نظريات پر باتيں كرتے هيں ـ
خاور كى هميشه كوشش هوتى هے كه واقعات اور نظريات پر بات كرنے والے پانچ پرسنٹ ميں شامل رهوں ـ
قيصر كے ساتهـ واقعات اور نظريات پر بحث مباحثے هوتے رهتے هيں ـ تكنيكى ذهن اور مضبوط جسم والاقيصر
شام كو كام كے بعد عموماً لاهور ريسٹورينٹ پر رفيق لهوريه كے پاس بيٹها هوتا هےـ
قيصر گورايه کهوچل آدمیقيصر گورايه
سلطان
سلطان جهلم كے ايك گاؤں بوڑياں كا رهنے والاهے فرانس ميں بجلى كا كام كرتا هے بوبى اور طارق كے ساتهـ ويمبلے والوں كى گلى ميں مل جاتا هے
يا پهر حلقه احباب فرانس والوں كى مسجد ميں نماز پڑهتے هوئے ـ
آجكل جهاں ميں كام كر رها هوں يه كام مجهے سلطان كے تعارف سے ملا هے ـ
سلطان سنياره يعنی زرگرسلطان سنياره
حاجى مزمل محمود
جناب حافظ صاحب كا تعلق حافظ آباد سے هے ـ پيشے كے اعتبار سے اليكٹريشن هيں ـ پيرس ميں ٹهاٹهـ كے نمازى حضرات ان كو جانتے هيں ـ حافط صاحب پيشه ور مولوى نهيں هيں ـ مگر حلقه احباب فرانس والوں كى مسجد ميں ان كى اقتداء ميں ميں نے بهى نماز پڑهى هے ـ اس كے علاوه حلقه احباب فرانس ميں بچوں كو قرآن كى تعليم بهى ديتے هيں ــ
حافظ مزّمل محمودحافظ مزمّل محمود

استاد سرور آف میلووال ، بھلوال

اصغر قریشی ، آف میلووال ، بھلوال

او ايس ايكس ميں اردو

مكنتوشى كے اپريٹنگ سسٹم اوايس ايكس ميں اردو لكهنے كے لئے طريقه كار ـ
مكنتوشى كے اپريٹنگ سسٹم اوايس ايكس ميں اردو لكهنے كے لئے طريقه كار ـ


مكنتوشى كے اپريٹنگ سسٹم اوايس ايكس ميں اردو لكهنے كے لئے طريقه كار ـ

ليکن اگر اپ ابهى تک كلاسيک استعمال كر رہے ہيں تو ميں خودكو آپ كى مدد كا اهل نهيں پاتا ـ
مگر او ايس ايکس والے اپريٹنگ سسٹم کيليےـ
یه مضمون کا آمد هو سکتا ہے

اوايس ايكس پر مانيٹر پر بائيں طرف اوپر والے كونے ميں سيب كے نشان پر كلک كريں توآپ كو سسٹم پريفرينس (انگریزی میں ) لکھا نظر ائے گى ماؤس كو یہاں لا كر سسٹم پريفرينس كهول ليں ـ
ميکنتوشی او ايس ايکس کا اپريٹنگ سسٹم

یہاں مختلف ائیكون ہوں گے، آپ يو اين كے جهنڈےوالے ائیکون جس كے نيچے انٹرنيشنل لكها هے اس پر كلک كر كے كهول ليں ـ
انٹرنیشنل کھلنے پر یہاں اپ كو لينگويج ـ فورميٹ ـ اور انپٹ مينيو كے الفاظ لكهے مليں گے ـ
آپ انپٹ مينيو پر كلک كريں يهاں آپ كوكتنے هى ملكوں كے جهنڈے اور ان كے نام لكهے هوئے مليں گےـ
ميکينتوش کا اپريٹنگسسٹم او ايس ايکس ۱۰

یه جهاں لینگویج لکھا ہے اگر اپ اس کو کلک کرتے هیں تو ؟؟؟
یهاں اپ اپنے کمپیوٹر کے اپریٹنگ سسٹم کی زبان بدل سکتے هیں ،
یهاں لکھی هوئی زبانوں میں سے جس زبان کو اپ ماؤس سے پکڑ کر ایک نمبر کرلیتے هیں اور اپنے کمپوٹر کو ری سٹارٹ کرتے هیں تو اپ کا کمپیوٹر اسی زبان میں هو جائے گا
یعنی که اپ کو ونڈوز کی طرح ہر زبان کا ورژن خریدنے کی ضرورت نهیں هے
دلچس بات یه هے که اگر اپ کے کمپیوٹر کو پندرھ لوگ اپنے اپنے یوزر کے طور پر رجسٹر هو کے استعمال کرتے هیں اور ان پندرھ لوگوں کی زبانیں مختلف هیں تو یه ایک کمپیوٹرپندرھ مختلف زبانوں کا کمپیوٹر بن جائے گا
بہرحال واپس اتے هیں اردو لکھنے کے طریقے کی طرف
ان پٹ مینیو پر کلک کرنے سے جو سامنے اتا ہے
يه ان ملكوں كى زبانيں هيں جن کے جھنڈے اپ کے سامنے هیں ـ

لیکن یہاں اردو کا کی بورڈ نهیں هے، یه اپ کو خود انسٹال کرنا هو گا، جو که اس مضمن میں اگے اپکو مل جائے گا که کیسے ڈاؤون لوڈ کرنا ہے اور انسٹال کرنا ہے
اگر کوئی اصاف کام نهیں کرنا چاہتے تو پھر اپ سسٹم میں موجود عرب قوے ریٹی سے کام چلا سکتے هیں
لیکن عربی کے کچھ حروف کا یونی کوڈ بمبر اردو کے حروف سے مختلف ہے حالاں که حروف ایک هی هیں جیسے که چھوٹی ی اور کتے والا ک وغیرھ

آپ ان ميں سےعرب قوےريٹى ٹک مارک كر ليں اور سسٹم پريفرينس كو بند كر ليں اب اپ كى

سكرين يعنى مانيٹر كے دائيں اوپرى كونے ميں ڈيجيٹل گهڑى كے پاس جهنڈے كے نشان پر كلک كريں ـ
بعض اوقات یه کی بورڈ ایکٹو نظر نہیں اتے ، اس کی وچه یه هوتی ہے که جہاں اپ اسوقت موجود هیں یعنی که جس ایپلیکشن میں اپ هیں یهاں یونی کوڈ سپورٹ نہیں کرتا هے
اس لیے
اگر عرب قوےريٹى ايكٹو نہيں هے تو پہلے ٹكسٹ ايڈيٹ كهول ليں اور دوباره جهنڈے والے نشان پر کلک کر کے عرب قورييٹی سليکٹ کر ليں اب يه ايکٹو ہو گی ، کیونکه ٹکسٹ ایڈیٹ ميں سارے هی یونی کوڈ رسم الخطوط کام کرتے هیں ـ اب اپ ٹكسٹ ايڈيٹ ميں اردو لكهـ سكتے ہيں ـ
اگر اپ كو كى بورڈ كى سمجهـ نه لگےکه کون سا حرف کس کی پر ہے ، تو اپ پهر دائيں اوپرى كونے سےجهنڈے پر كلک كر كے شو كى بورڈ ويوار سلیكٹ كر ليں اس طرح كى بورڈ كى ايک تصوير آپ كے سامنے آجائے گى آپ اسے ديكهـ كر حروف كى پوزيشن كا اندازه كر سكتے هيں ـ مكينٹوشى او ايس ايكس ميں آپ فائلز اور فولڈر كے نام بهى اردو ميں لكهـ سكتے هيں ـ آئى ٹيون ميں گانوں كے نام بهى لكهـ سكتے هيں ـ اور فائنڈر ميں آپ اردو نام والى فائلوں اور فولڈرز كو تلاش اور اس كى ارينجمينٹ كر سكتے هيں ـ اور اوايس ايكس ميں يه سب اردو تک هى محدود نہيں آپ گورو مكهى گجراتى ديوانگرى پشتو اور افغان دری اور كتنى هى زبانيں بغير كسى ايكسٹرا انسٹاليشن كے لكھ پڑه سكتے هيں ـ

مذيد معلومات


اردو انسايکلوپيڈيا پر لکهنے والےحيدر صاحب کي ايک تحرير سے مجهے احساس ہوا که يونی کوڈ ميں عربی کی چهوٹی ی اور اردو کی چهوٹی ی کا کوڈ نمبر مختلف ہےـ
اسي طرح اور بهی کچهـ کوڈ مختلف ہو سکتے ہيں ـ
ميں اب تک عرب قوريٹی میں لکهتا رہا ہوں اس ليے ميری تحارير ميں ڈبے بن جاتے تهےـ

اب اگر اپ چاہيں تو اردو کی بورڈ بهی انسٹال کر سکتے ہيں ـ
نيچے ديے گيے لنک سے اپ اردو فونيٹک کی بورڈ اور دوسرا اردو پی سی کی بورڈ ڈاؤن لوڈ کر سکتے ہيں `ـ
ڈاؤنلوڈ کا طريقه
مندرجہ ذیل لنک پر کلک کرکے زیپ فائیل ڈاؤن لوڈ کرلیں

مختلف اردو کی بورڈبرائے ایپل کمپیوٹر
اس زپ فائل کو ڈاؤن لوڈ کے بعد ڈبل کلک کریں تو یه گھل ایک فولڈر بن جائے گا جس کا نام کی بورڈ هو گا
اپ اس فولڈر سے صرف فائیلیں لے لیں
کاپی پیسٹ کرکے یا پھر ماؤس سے پکڑ کر ، کی بورڈ لے اؤٹ والے فولڈر میں رکھ لیں

یه فائلیں کی بورڈ لے اوؤٹ کے فامیٹ میں هیں ، اگر اس فارمیٹ کے بعد یا پہلے کوئی اور فامیٹ لگ
کیا هو تو اس کو ہٹا دیں، صرف کی بورڈ کا فارمیٹ هی کام کرتا هےـ

فائلوں کو کی بورڈ لے اؤٹ والے فولڈر میں رکھنے کا طریقہ

اس کے بعد اپنے کمپيوٹر کي فاينڈر ونڈو کهول ليں ـ
اپنے کمپيوٹر کی ہارڈ ڈسک کهول کر لايبريری فولڈر کهوليں لايبريری فولڈر ميں سے کی بورڈ لے اؤٹ کهوليں ـ
یه کچھ اس طرح بنتا هے
Macintosh HD/Library/Keyborard Layouts/
اس فولڈر میں پہلے سے کچھ بھی موجود نهیں هو گا
اگراپ نے کچھ خود سے انسٹال نهیں کیا هوا هے تو
آپ نے جو کی بورڈز ڈاؤن لوڈ کيے هيں ان کو اس فولڈر ، کی بورڈ لے آؤٹ ميں رکھ ليں ـ
کاپی پیسٹ کرکے یا پھر ماؤس سے پکڑ کر ، کی بورڈ لے اؤٹ والے فولڈر میں رکھ لیں

اس کے بعد آپنے کمپيوٹر کو ری سٹارٹ کر ليں ـ
کمپیوٹر ری سٹارٹ کے بعد
اب یه کی بورڈز سسٹم پريفرينس کے انٹرنيشنل ميں پہنچ چکے هيں ـ
اب آپ اُپر ديے گيے طريقه کار کے مطابق جس طرح عرب قوريٹی سليکٹ کی تهی اسی طرح اردو کی بورڈ سليکٹ کر سکتے هيں ـ

Popular Posts